• news

’’ترجیحات‘‘

دنیا میں کہیں بھی سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر سو فیصد عمل پیرا نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ مثالی جمہوری معاشروں میں بھی غیرجمہوری جرائم پائے جاتے ہیں۔ البتہ وہ سیاسی جماعتیں جو جمہوریت کا دعویٰ کرتی ہیں مگر آئین ساز اداروں کی خودمختاری کی قائل نہیں‘ بنیادی اصولوں سے روگردانی کرتی ہیں اور ان اصولوں سے روگردانی کی سزا بے چینی‘ سیاسی کشمکش اور اقتدار میں توازن کا بحران پیداکرتی ہیں جس سے ماحول میں ڈپریشن پیدا ہونے سے فضا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ سیاسی بے چینی کے بڑھتے ہوئے خلاء میں عام آدمی بنیادی حقوق سے محروم نظر آتا ہے۔ سیاسی استحکام کی بیل کسی صورت منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اڑسٹھ سالوں سے ہمارے پاس احتساب کا کوئی مؤثر فارمولا موجود نہیں ہے۔ ہمارے ہاں احتساب کے کھوکھلے نعرے تو لگائے جاتے ہیں‘ لیکن اس پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ بدامنی کی نوعیت جو بھی ہو‘ اس کے ڈانڈے عدم احتساب اور عدم اعتماد سے جا ملتے ہیں تو ماضی میں احتساب کا کوئی اصول رہا اور نہ ہی اب ہمیں اس سلسلہ میں کوئی نمایاں کارکردگی نظر آتی ہے۔ نیب کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ سٹیل ملز‘ سٹیل پاور اور حج کرپشن کے کیسز پر جو عملدرآمد ہوا‘ اس کا جواب صفر ہے۔ احتساب کیلئے سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ ہر محکمے اور ہر ادارے میں ٹرانسپرنسی لائی جائے‘ لیکن یہاں یہ صورتحال ہے کہ 56 اداروں نے آڈیٹر جنرل کو اپنے اکائونٹ چیک کرانے سے انکار کر دیا۔ جب قومی اداروں کا وقار مجروح ہوتا ہے تو حکومتی کارکردگی منظرعام پر آتی ہے۔ ترقی کا وہ خواب جو حکومتیں وعدوں اور نعروں سے دکھاتی ہیں‘ دھندلا جاتا ہے۔ آج غریب انصاف کیلئے ترساں ہے۔
 مسلسل ناانصافی اور بیروزگاری نے اس کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ مغربی جمہوریت کی ڈرافٹنگ کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں بنیادی حقوق کا تحفظ‘ اجتماعی مفاد کی ترجیح اور احتساب کے اصول لاگو ہیں۔ ہمارے ہاں ترقی کے معیار میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ بھارت نے مریخ پر جانے کیلئے 60 ارب روپے خرچ کر دیئے جبکہ ہم نے شاہدرہ سے گجومتہ جانے کیلئے اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ کر دی۔ پاکستان میں امن کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہم ترقی کے معیار کو عوام کے بنیادی حقوق سے منسلک نہیں کرتے۔ جس کیلئے فکری اصلاحات کی ازحد ضرورت ہے۔
آئیڈیل جمہوری نظام میں تنقید جمہوریت کی خاصیت ہوتی ہے۔ تنقید نئی فکر کو جنم دیکر معاملات کی درستگی کا باعث بنتی ہے‘ لیکن جن معاشروں میں عدم برداشت‘ احتساب کا فقدان اور ذاتی مفادات جگہ بنا لے تو وہاں جمہوری اصولوں کا بار بار گلا گھونٹا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے اصلاح احوال کیلئے کئی آپشنز ہیں جن میں خلوص نیت سے مستحکم سیاسی نظام‘ عام آدمی کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور ان غلطیوں کا ازالہ ہے جن کو بار بار دہرایا جاتا رہا ہے‘ لیکن اس وقت ہماری سوچ اور عمل دخل الٹے اہرام کی شکل میں ہے۔ جو قومیں ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کرتی ہیں‘ وہ قومیں خود اعتمادی اور خودانحصاری کے راستوں پر چلی نکلتی ہیں‘ لیکن ہم نے ہمیشہ ان دو عناصر کے نفاذ کے بجائے خوداعتمادی اور خودانحصاری کی بڑھکیں لگائیں لہٰذا ایک طویل عرصہ گزرنے اور جوہری ٹیکنالوجی حاصل کر لینے کے بعد بھی قوم کسی رہنما کی منتظر ہے۔ صدیوں کے تلخ تجربات کے بعد جن ترقی یافتہ ممالک میں جمہوری نظام کو استحکام ملا‘ وہاں جیتنے والی پارٹی دستور اور روایت کے مطابق مقررہ مدت تک اپنی پالیسیوں اور منصوبوں کو آگے لیکر چلتی ہے۔ ہارنے والی پارٹی قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر حکومت پر تنقید کرتی ہے‘ لیکن جب حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں مخالفت اور تنقید کو برداشت کرنے کا عنصر ختم ہو جائے اور ایک دوسرے کا وجود کانٹے کی طرح چبھنے لگے تو ’’کارکردگی‘‘ جزو معطل بن کر رہ جاتی ہے اور ذاتی رنجشیں‘ دشمنی اور تذتذب ایسے محرکات جنم دیتے ہیں کہ اصل اہداف سے حکومت کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست جنم لیتی ہے اور جمہوری عمل متاثر ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص‘ جماعت یا ادارے کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ نام نہاد اقتصادی ترقی‘ قومی مفاد یا قوم پرستی کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جمہوریت کے عمل کو متاثر کرے۔
 ہمارے عوام بیدار تو ہو چکے ہیں‘ لیکن نام نہاد جمہوریت اور فرسودہ سسٹم کے تحت مجبور ہیں۔ وزیراعظم نے 2018ء میں الیکشن کا عندیہ دیا ہے۔ عوام کا موجودہ مسئلہ روزگار کا حصول‘ مہنگائی کا سدباب‘ امن کا فروغ اور انصاف ہے۔ جب عوام کو انکے حقوق حاصل ہوں تو انہیں سروکار نہیں ہوتا کہ حکومت کس کی ہے اور کون برسراقتدار ہے۔ عوام میں اپنے حقوق کے مطالبات کا جو شعور پیدا ہو چکا ہے‘ اسے اور انکے ابلتے ہوئے جذبات کو مثبت رخ عطا کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ رخ متعین کرے جو انہیں جلسے‘ جلوس اور توڑپھوڑ کی راہ پر گامزن کرنے کی بجائے ترقیاتی کاموں کی نشاندہی اور تکمیل کی طرف لگائے۔

ای پیپر-دی نیشن