کپتان‘ لاڑکانہ سے خالی ہاتھ کیوں لوٹے؟
پاکستان کی سیاست میں اچانک تلاطم برپا کرنے والے عمران خان ماضی کے عظیم کردار اصغر خان کی طرح جذباتی سیاست کرتے ہیں۔ اصغر خان جنگ ستمبر کے ہیرو تھے مگر اشرافیہ نے سیاسی میدان میں اتاردیا اور ان سے کام نکال کر انہیں چلتا کردیاتو وہ ہیرو سے زیرو ہو گئے۔ اشرافیہ پاکستان میں مقبول سیاسی قیادت کے حق میں نہیں تھی۔ اصغر خان کو پاکستان کی مقبول سیاسی قیادت ذوالفقارعلی بھٹو کے متبادل کے طور پر راتوں رات پروان چڑھایا گیا لیکن وہ اشرافیہ کی آنکھ کا تارا ہونے اور’’ عوامی مقبولیت‘‘ پانے کے باوجود کسی طرح بھی وردی سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔ انکے ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ سخت گیرانسان تھے ٗاپنی انا کے ہاتھوں مارے گئے اور سیاسی شہید کا رتبہ پا کر ناکامیوں کی دیوار میں چنوا دئیے گئے اور آج ان کا نام محض تاریخ میںیادگار کے طورپر محفوظ ہے۔ ماضی کا یہ عظیم کردار اصغر خان آج ایبٹ آباد کے اپنے گھر میں بستر پردرازاپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے اور اس کی آنکھیں ٹکٹکی باندھے چھت سے لٹکتے پنکھے کو گھورتی رہتی ہیں۔ ایک ایسے ہی پنکھے سے ان کا اکلوتا دانشور بیٹا ٗ عمر اصغر خان ٗجنرل پرویز مشرف کی آنکھ کا تارا ٗ جنرل پرویز مشرف کے ہی دور میں گذری قبرستان کے قریب ڈیفنس کراچی کے ایک گھر میں ایک رات پراسرارطورپرپنکھے سے جھول رہا تھا۔ پاکستان کا ایک قومی ہیرونہ تو بیٹے کے قاتلوں کا کھوج لگا سکا اور نہ ہی اشرافیہ اسے انصاف دے سکی۔ کپتان کے ناقدین بھی کہتے ہیں کہ عمران خان اشرافیہ کی آنکھ کا تارا ہونے اور عوام کا ’’شرف قبولیت‘‘ پانے کے باوجود ابھی تک کرکٹ میں ہیں اور کرکٹ کے میدان سے باہر ہی نہیں نکل سکے۔ وہ بھی زمینی حقائق سے ہٹ کرجذباتی باتیں کرتے ہیں اور جذباتی نعرے لگاتے ہیں۔وہ بھی اصغر خان کی طرح ماضی کے قومی ہیرو ہیں جنھیں کارزار سیاست میں دھکیل دیاگیا ہے۔ وہ ایک بال پر دو دو وکٹیں گرانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔جبکہ اسٹیٹس کومیںوہ جتنابھی زورلگالیں شایدان سے کوئی ایک وکٹ بھی نہیں گرسکے گی۔پوراروایتی نظام ان کی سیاسی بغاوت کیخلاف اٹھ کھڑاہوا ہے اور اسٹیٹس کوکوبچانے کیلئے سب قوتیںان کیخلاف متحدہوگئی ہیں۔ان کی اس طویل سیاسی اننگزکا نقصان یہ ہواہے کہ وہ خودبھی آہستہ آہستہ ایسے روایتی لوگوں میں گھرتے چلے جارہے ہیں جو اسٹیٹس کوکی علامت ہیں۔انکی یہی روش انکی ناکامیوں کی بنیادبن سکتی ہے جس کاشاید انہیں ادراک ہی نہیںہوپارہا۔انکے مخالفین کہتے ہیں عمران خان بڑی تیزی سے اصغرخان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ عمران خان اسلام آباد ڈی چوک کے میدان میںبائونسر پر بائونسر پھینکنے کے باوجود میاں نواز شریف کی وکٹ تو نہ گرا سکے ٗ مخدوم شاہ محمودقریشی کی معیت میں آصف علی زرداری کی وکٹ گرانے ایک روایتی وڈیرے کی دعوت پرلاڑکانہ چلے آئے۔ جو سندھ کی سیاست پرنظررکھتے ہیںانہیں پتہ ہے کہ لاڑکانہ کا سیاسی میدان ذرا الگ مزاج کا ہے جسے کپتان کے دست راست شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی میں کچھ عرصہ پناہ گزیں رہنے کے باوجودبھی نہیں سمجھ سکے۔سندھ میں عمران خان کے شکار آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین ضرور ہیں اور بی بی کی شہادت کے نتیجے میں اقتدارپربھی متمکن ہوئے لیکن تکنیکی طورپر جیالوں میںپیپلزپارٹی نہیں سمجھے جاتے ۔پیپلزپارٹی کی میراث ٗپارٹی نے بی بی شہید کے بیٹے بلاول بھٹوزرداری کے سپردکردی ہے ۔ لاڑکانہ پیپلزپارٹی کاایسامضبوط قلعہ ہے جسے ممتازعلی بھٹو ٗبھٹوہونے کے باوجودتسخیرنہ کرسکے۔ اور تواور بھٹوئوں کی پے درپے لاشیں گرانے کے باوجود بھی گزشتہ اڑتالیس سالوں میںاسے فتح نہ کیا جاسکا۔ بھٹو خاندان کی قربانیوں کی وجہ سے لاڑکانہ اہل سندھ کاہی نہیں ملک بھر کے روشن خیال لوگوں کاسیاسی قبلہ سمجھا جاتاہے ۔عمران خان نے اسلام آبادسے لاڑکانہ کا رخ کیا توانکی لاڑکانہ پر چڑھائی آصف علی زرداری پر نہیںبھٹوئوںکی میراث پیپلزپارٹی پر سمجھی گئی ٗ اس لئے لاڑکانہ اورسندھ کے لوگوں نے اس کال کو مسترد کردیا۔ لیکن یہ ایک غیرمعمولی بات ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے گڑھ میں اپنے لوگوں کی ایک بڑی تعدادجمع کرنے اور اس جلسہ میں ’’گوزرداری گو‘‘ اور ’’گونوازگو‘‘ کے نعرے بلندکرانے میں کامیاب رہے۔ میں عمران خان کے غریب پرورجذبے کی اہمیت سے انکاری نہیں مگرانکے طرزسیاست کوان کی کامیابیوں کیلئے بنیاد نہیںسمجھتا۔ انہوں نے جس فرسودہ اور عوام دشمن نظام میںرہ کر تبدیلی کا نعرہ دیا ہے وہ کسی طرح بھی بارآور نہیں ہوسکتا۔ موجودہ جاگیردارانہ نظام اوروڈیرہ شاہی میں رہتے ہوئے کوئی تبدیلی یاخوشی اس ملک کے عوام کی تقدیر نہیں ہوسکتی اور نہ ہی عمران خان کا نیا پاکستان معرض وجود میں آ سکتا ہے۔اگرپاکستان کو نیا پاکستان بناناہے تو اس نظام کوجڑسے اکھاڑ پھینکنا ہوگا جس میں ملک کی پچاس فیصدآبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پرمجبورہے۔ عمران خان کوزمینی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان کی سرزمین سیاسی سمجھوتوں کی آماجگاہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ایک بھی جمہوری ٗغیرجمہوری حکومت ایسی نہیں ہے کہ جو کسی سمجھوتے کا شاخسانہ نہ ہو۔ یہ دور تو اعلانیہ سیاسی سمجھوتوں کا دور ہے۔ یہاں کچھ لئے اور کچھ دئیے بغیر بات نہیں بنتی۔ پاکستان جیسے ملک میں عوام کی سیاست خون کی قربانی مانگتی ہے۔بھٹوئوں نے عوام کے نام پرپھندوں پر جھول کر خودکو امر کر لیا۔پیپلز پارٹی کا مستقبل آج بھی گڑھی خدا بخش کے سیاسی قبرستان میں مدفون باپ بیٹی کے خون سے عبارت ہے ۔جب تک پیپلز پارٹی میں کربلا کا رنگ غالب رہے گا اس وقت تک لاڑکانہ فتح کرنے کے خواب ادھورے رہیں گے۔