سارک کانفرنس میں قومی مؤقف؟
پاکستان کے عوام اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انہیں ایک بہت بڑے عفریت کا سامنا ہے۔ ایک ایسے جارح ہمسایہ ملک کا جس کی جارحانہ کارروائیوں کے باعث اس خطے کے ماحول کو کبھی پُرامن انہیں رہنا نصیب نہیں ہوا حالانکہ پاکستان کے قیام کا مقصد ہی یہ تھاکہ برصغیر کی دو قوموں مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان آئے دن کے تنازعات اور بدامنی کو ختم کیا جائے۔ برصغیر میں ان دونوں قوموں کے درمیان قریبا ً نو سو سال سے کشمکش جاری رہی۔ بلاشبہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا جبکہ کرۂ ارض بالخصوص یورپ میں بھی کئی اقوام کو ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات و رابط رکھنے کیلئے تقسیم اور علیحدگی کا راستہ اپنانا پڑا۔ جیسے ناروے اور سویڈن‘ مگر اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت نے ابھی تک پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا ۔ جہاں تک غیر منقسم ہندوستان کی پاکستان اور بھارت نام کی دو مملکتوں کی تقسیم کا تعلق ہے‘ یہ تقسیم اس بنیاد پر ہوئی کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان سے عبارت ہونگے۔ اسی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا لازمی حصہ ہیں۔ کشمیری عوام پاکستانی قوم کا حصہ ہیں‘ پاکستان کے عوام کا گوشت پوست ہیں۔ مذہبی‘ ثقافتی‘ جغرافیائی‘ تاریخی ہر اعتبار سے کشمیری عوام پاکستان کی قوم کا جزو لاینفک ہیں۔ کشمیری عوام کو حق خودارادیت کا موقع دیئے بغیر تقسیم برصغیر کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو سکتا۔
وزیراعظم میاں نوازشریف نے سارک کانفرنس میں شرکت کیلئے کھٹمنڈو جانے سے پانچ یوم قبل مظفرآباد میں آزاد جموں و کشمیر کونسل سے خطاب میں بجا طورپر درست کہا کہ کشمیر اور پاکستان یک جان دو قالب ہیں جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستان اور کشمیر کی شناخت ایک ہی ہے۔ جموں و کشمیر پر پاکستان اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔‘‘
وزیراعظم میاں نوازشریف نے سارک کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران یہ تو کہا ہے کہ کانفرنس کے ممالک خطے میں ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہونے کے بجائے خطے میں غربت‘ جہالت کے خلاف جنگ کریں۔ انہوں نے پاکستان کا خطے کے ممالک کیلئے معاشی کوریڈور کی حیثیت رکھنے کا بھی تذکرہ کیا اور سارک ممالک کو ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور صحت‘ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا مگر انہوں نے پاکستانی قوم کیلئے زندگی اور موت کے مسئلہ‘ تنازع کشمیر کا کسی بھی حوالے سے تذکرہ کرنا ضروری نہ سمجھا؟
سارک کانفرنس خطے کے ان سات ممالک سے عبارت ہے‘ جہاں کرۂ ارض کی کل آبادی کا قریباً پچیس فیصد حصہ آباد ہے۔ اس سطح کے پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کا تذکرہ نہ ہونے سے پاکستانی عوام کا اپنی قیادت سے مایوس ہونا فطری امر ہے۔ خطے کی حقیقی سیاسی صورتحال سے واقف ہر بالغ نظر سیاستدان اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ سارک کانفرنس میں بھارت اپنی بالادستی قائم رکھنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ سارک ممالک کے چھوٹے چھوٹے ممالک کو اپنا باجگزار بنانے کا خواہاں ہے۔
حالات و واقعات اس امر کے متقاضی ہیں کہ قومی قیادت کے دعویداروں کو پاکستان کیلئے کشمیر کی اہمیت اور حیثیت کا احساس دلایا جائے کیونکہ یہ بات بلاخوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ بوجہ قومی قیادت کے دعویدار بزرجمہروں کو کشمیر اور کشمیریوں کی برصغیر کے مسلمانوں سے دینی‘ تمدنی اور ثقافتی تاریخ ہی سے آگاہی نہیں ہے ورنہ ایٹمی پاکستان کی قیادت بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھارت سے بات کرنے میں کبھی پس و پیش نہ کرتی۔بھارت کی فوج ایک مذموم مقصد کے تحت لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر اپنی اشتعال انگیز کارروائیوں سے شہریوں کو شہید کر رہی ہے۔ کانفرنس میں تقریر کے دروان اس کا جچے تلے الفاظ میں ذکر ہونے سے اگر بھارتی وزیراعظم مودی کی پیشانی پر بل پڑ جاتا تو اس کو معلوم ہو جاتا کہ اس کی مکاریوں اور عیاریوں سے پاکستان کی قیادت نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اس کا جواب دینے کا حق بھی محفوظ رکھتی ہے۔ پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ خود جموں و کشمیر کے عوام پاکستان سے الحاق کے خواہاں ہیں۔ اسی غرض کیلئے 19 جولائی 1947ء کشمیریوں نے اپنی واحد نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے قرارداد بھی منظوری کی تھی۔ یوں پاکستان سے الحاق کا فیصلہ ہوا تھا مگر بھارت نے فریب کاری اور سازشوں سے ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ کشمیری حریت پسندوں نے بھارت کے اس جارحانہ اقدام کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو بھارت دوڑ کر اقوام متحدہ کی طرف گیا جہاں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے وعدہ کیا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق جموں و کشمیر میں استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کویہ حق دیا جائے گا کہ فیصلہ کریں وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا بھارت سے مگر بھارت اس وقت سے لیکر نہ صرف اپنے وعدے سے انحراف کر گیا بلکہ اس کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ وہ کشمیر کو اپنا جزولاینفک قرار دینے سے بھی رتی بھر نہیں ہچکچا رہا۔ یہ تاریخ کی انمٹ حقیقت ہے کہ کشمیر جغرافیائی لحاظ سے پاکستان سے متعلق ہے۔ پاکستانی دریائوں کے سوتے کشمیر ہی سے پھوٹتے ہیں۔ دریائے سندھ ریاست جموں کشمیر سے گزرتا ہے۔ چناب بھی اسی متنازعہ ریاست سے گزرتا ہے جس طرح پاکستان کے دریائوں اور معیشت کا آپس میں تعلق ہے‘ اسی طرح پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے نسل‘ ثقافت اور مذہب سے منسلک ہیں۔ کشمیر کے بغیر پاکستان ایسا ہے جیسا کہ سر کے بغیر جسم۔ جو عناصر مخصوص مفادات کے تحت تنازع کشمیر کے ایسے تصفیہ کے بغیر جو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق نہ ہو‘ بھارت سے دوستی اور تجارتی تعلقات کو قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ وہ درحقیقت بھارت کے اسی منصوبے کی دانستہ یا نادانستہ تکمیل کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔ سارک کانفرنس کی آڑ میں بھارت جس منصوبہ پر عملدرآمد کرنے کا خواہاں ہے‘ بھارت کے اسی منصوبے کی آڑ میں پورے خطے میں اپنی اقتصادی اور تجارتی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ سارک کے چھوٹے ممالک کی تجارتی مارکٹیوں پر اپنا تسلط قائم کرکے ان کی صنعتی و زراعتی معیشت کو تباہی سے ہمکنار کر دے اور وہ ملک بھارت کے دست نگر ہو کر رہ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سارک کانفرنس میں جس قسم کے فیصلے بھی مستقبل میں ہونگے‘ درپردہ ان میں بھارت ہی کا مفاد وابستہ ہوگا۔ بھارت ہر حالت میں سارک ممالک میں اپنی معاشی برتری اور اقتصادی تسلط کو برقرار رکھنے میں کوشاں ہے۔ اس ممالک میں چھوٹے ممالک اگر اپنی قیادتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر اپنی سلامتی اور قومی خوشحالی ایسے معاملات کونہیں اٹھا سکتے تو نرم سے نرم الفاظ میں ایسی کانفرنس اور سات ممالک کے سربراہی اجلاس کو نشستند ‘ گفتند و برخواستند ہی کے نتائج کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔کاش جن خیالات کا اظہار وزیراعظم میاں نوازشریف نے مظفر آباد میں منعقدہ آزاد جموں و کشمیر کونسل سے خطاب کے دوران کیا ہے‘ اس کے چند جملے سارک کانفرنس میں اپنی زبان سے ادا کر دیتے۔ قیادت کی لاج رہ جاتی۔