• news

’ مسئلہ ٗ ِ فلسطین کی سنگینی‘۔سویڈن کے وزیر اعظم کی تشویش

صداقت نوع ِ انسانی کیلئے ہمیشہ کامیابی وکامرانی کی نوید بنی ہے چاہے صداقت کی یہ صدا دنیا کے کسی بھی حصہ میں ‘ کسی بھی ملک میں کسی بھی ملک کے کسی بھی حکمران یا عام مسلم یا غیر مسلم فرد نے بلند کی ہو ‘ صداقت وسچائی کی صدا کو بلند کرنیوالے ہر عہد میں شہرت و عظمت کی پہچان بنے اِس کی وجہ ہے کہ صداقت وسچائی کے برخلاف پروپیگنڈا کرنیوالے کے دام ِ فریب کے بچھائے گئے جال میں وہ کسی قیمت پر بھی نہیں پھنسے اگر قدرت نے اُنہیں صداقت وسچائی کا دوٹوک و ببانگ ِ دہل اعلان کرنے کا موقع فراہم کیا تو ایسے سچے اور بے باک منتخب افراد نے ڈنکے کی چوٹ پر سچائی کا برملا اظہار کر نے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی دنیا کے آفاقی ادیان کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ اُنہیں ہمیشہ سچ بولنا ہے سچ کیلئے زہر کا پیالہ بھی پینا پڑے تو ایسے سچے بہادر ‘ دلیر اور نڈر نامور ممتاز شخصیات نے دوقدم آگے بڑھ کر نہ صرف زہر پیا بلکہ خود کو دار پر بھی کھینچ وا لیا، آجکل مغربی میڈیا کے سبھی ممتاز میڈیا میں اسکینڈینویا کے ایک ملک سویڈن کے نئے منتخب وزیر اعظم مسٹر اسٹیفن لوفن کے اُس جراّت مندانہ خطاب کے اُن خاص مندرجات پر بڑا غور وخوض ہورہا ہے مسٹر اسٹیفن لوفن نے 3 ؍ اکتبو بر 2014 کو بحیثیت منتخب وزیر اعظم سویڈ ن کی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں دنیا کی تو جہ جب مسلہِ فلسطین کی طرف دلائی اور یہ یادبھی دلایاکہ یہ اُن کا یہ وعدہ تھا کہ اگر سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کو سویڈش عوام نے حکمرانی کیلئے منتخب کیا تو اپنی پہلی فرصت میں سویڈن کی نئی قیادت مشرق ِ وسطیٰ میں حقیقی امن کے قیام کیلئے یورپی یونین سمیت عالمی طاقتوں کو یہ برملا احساس دلائیں گے کہ ’ مسئلہ ٗ ِ فلسطین‘ کو فلسطینی عوام کی رائے اور اُنکی مرضی ومنشا کے مطابق حل کرانے کی کوششوں کو اوّلیت دی جا ئے ،بحیثیت ِ پاکستانی مسلمان ہم سویڈن کے نئے وزیر اعظم مسٹر اسٹیفن لوفن کے تہہ دل سے مشکو ر‘ اُنہوں نے دنیائے ِ اسلام کے دل کی آواز کو حق پر مبنی حقیقت کے طور پر نہ صرف خود سمجھا ہے بلکہ سویڈش پارلیمنٹ کے افتتاحی خطاب میں اِس انسانی مسئلہ کے حل پرپوری سچائی کے ساتھ زور دیا یقینا اُن کی حق پر مبنی سچائی کی یہ آواز دنیا بھر میں سنجیدگی کے ساتھ سنی گئی ہوگی، اسکینڈینویا ممالک میں سویڈن بڑا اہم ملک تصور کیا جاتا ہے، امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کے دیر ینہ مسائل کو زمینی حقائق کی قرار واقعی روشنی میں سمجھنے کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہی نہیں ، مسلمانوں کو ہمیشہ زہریلے تعصب کی عینکوں سے دیکھنے کے انتہائی تضحیک آمیز امریکی اور عالمی رویے نے مغربی دنیا کیلئے خلاف مسلمان عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت کی آگ کو بجھانے یا اِسکی شدت کو کم کرنے کی جانب توجہ تک نہیں کی پھر یہ سوال کیوں کیا جاتا ہے کہ مسلمان عوام آخر امریکی طرز ِ حکمرانی سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ جان بوجھ کر دنیائے ِ اسلام کے ساتھ روا رکھے جانے والے امریکی سلوک نے دنیا کے مسلمان ممالک کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے یااِس جانب توجہ کرنے میں اب تک اپنا کون سا خصوصی کردار ادا کیا ہے ؟ امریکا جیسے بڑے عالمی طاقت کی بجائے سویڈن جیسا ترقی یافتہ ایک چھوٹا ملک دنیائے ِ اسلام کے نزدیک کس قدر قابل ستائش ٹھہرا جس ملک کے نئے وزیر اعظم مسٹر اسٹفین لوفن نے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کیلئے آواز تو اُٹھا ئی ہے، یہاں ہم مسٹر اسٹیفن لوفن کی توجہ جنوبی ایشیا کی جانب بھی مبذول کرانا چاہئیں گے مسئلہ کشمیر بھی فلسطینی مسئلہ کی طرح مسلمانوں کیلئے گزشتہ 67 برسوں سے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے یہ مسئلہ 1948 سے آج تک اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی ’گرد ‘ میں اٹا ہوا پڑا ہے، عالمی طاقتیں دنیا کے جس حصہ میں جہاں اُنکے معاشی مفادات پر زد پڑ رہی ہو وہاںاقوام ِ متحدہ کی آڑ میں وہ فوراً درمیان میں کود پڑتی ہیں مشرقی تیمور میں ایسا ہی کچھ ہوا ہے وہاں دیکھتے ہی دیکھتے پل بھر میں اقوام ِ متحدہ نے مشرقی تیمور کے عوام کی مرضی ومنشا جاننے کیلئے حق ِ استصواب ِ کا عالمی انتظام کروادیا، مشرقی تیمو ر آزاد ہوگیا ،یقینا کسی قوم کے بنیادی انسانی حقوق پر غلامی کے ڈاکے ڈالنے کی کسی جابر و استبداد غا صب قوم کو کوئی حق نہیں پہنچتا ، مشرقی تیمو ر کے عوام کو جیسے اقوام ِ متحدہ نے اُنکے بنیادی انسانی حقوق دلوائے، فلسطین کے ساتھ کشمیر کے مسلمان عوام بھی اپنے حقوق کیلئے‘ اپنی قومی وملی آزادی کیلئے اپنی تگ ودو کی مشقتیں ‘ تکالیف اور مصائب کے پہاڑ جھیل رہے ہیں، مشرق ِ وسطیٰ میں اسرائیل جبکہ جنوبی ایشیا میں بھارت تشدد ‘ جبر ‘ اور ریاستی دہشت گردی کے زور پر کئی لاکھ کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق غضب کیے دنیا کے امن کیلئے اب واضح خطرے کی علامت بنتا جارہا ہے مشرق ِ وسطیٰ میں اسرائیل علاقہ کا ’تھانیدار ‘ بنا ہوا ہے ادھر ’بھارت ‘ کو نہ صرف جنوبی ایشیا میں بلکہ اِسے ’ ایشیا پیسفک ‘ کا ’تھانیدار ‘ بنانے کی امریکی خواہش کے پیچھے چھپی باطل شہ کا پوشیدہ مقصد دنیا کے سامنے کھل کر آچکا ہے افغانستان میں امریکا نے بھارت کو مستقلاً بٹھا کر پاکستان کو ہمہ وقت ’دوطرفہ‘ چوکنا رہنے کی اوّلین ضرورت پر لاکھڑ اکیا ہے، متذکرہ بالا سطور میں ہم سویڈن جیسے غیر جانبدار ترقی یافتہ سوشل سیکٹر میں قابل ِ ستائش جدید مہذب ملک کے عوام کو یہ پیام ضرور پہنچا نا چاہئیں گے کہ وہ دنیا بھر کی محکوم ومظلوم اقوام کی آزادی کیلئے اپنی سطح پر قابل ِ قدر خدمات کا یہ سلسلہ جاری رکھیںاور کچھ نہیں تو کم ازکم اسکینڈنیویا کے یہ ممالک مشرق ِ وسطیٰ میں فلسطین کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کیلئے کی جانیوالی آزادی کی جدوجہد کی صحیح تصویر یورپی یونین کے اُن ممالک کو ضرور دکھانے میں کامیاب ہوجائیں گے جن پر ’بھارت نوازی ‘ کاخبط سوار رہتا ہے ایک نامور یورپی مفکر "Sallust" اپنے ایک تجزئیے میں کہتا ہے ’ضروری نہیں ہے کہ امن ‘اتحاد اور اتفاق کویقینی بنانے کیلئے کوئی بڑی طاقت پہل کرئے کوئی بھی چھوٹا ملک جو عدل‘ انسانی اتفاق اور اتحاد پر پختہ یقین رکھتا ہو وہ بھی ایسے کسی سنگین مسئلہ کی سنگینی کو کم کرنے کیلئے اگر پُرعزم ہوجائے تو عجب نہیں ہے کہ متحارب نسلوں کے مابین انصاف اور اتفاق و اتحاد کی فضا قائم ہوجائے ‘ مثلاً سویڈن کے وزیر اعظم اِس کی مثال بن سکتے ہیں مشرق ِ وسطیٰ کے ساتھ جنوبی ایشیا میں بھی وہ بھارت پر اپنا اثر ڈالیں اُنکے ساتھ یورپی ممالک بھی شامل ہو جائیں تو پھر جنوبی ایشیا میں بھارت کی جانب سے روز بروز کے بڑھتے ہوئے علاقائی نفاق و ابتری اور کشیدگی کی صورتحال میں کمی واقع ہوسکتی ہے وقت آگیا ہے کہ اقوام ِ متحدہ فی الفور بھارت میں قائم اپنے UNMOGIP کو متحرک کرے اِس گروپ میں کئی یورپی ممالک کے نمائندے بطور مبصر شامل ہوتے ہیں تاکہ مقبوضہ کشمیر کی آئے روز کی تازہ ترین ابتر و سنگین صورتحال سے عالمی ادارہ مزید باخبررہے۔

سید ناصر رضا کاظمی

سید ناصر رضا کاظمی

ای پیپر-دی نیشن