ناطقہ سر بگریباں ہے کہ اسے کیا کہیے
گزشتہ دنوں محکمہ صحت کے حوالے سے ایک خبر نظرسے کیا گزری کہ دل و دماغ کی ساری سوئیوں پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی اور انہوں نے کسی اور موضوع پر سوچنے اور چلنے سے انکار کر دیا۔ وہ حیرت افزا خبر یہ تھی کہ دائیوں اور عطائیوں کے ہاتھوں بگڑے زچگی کے کیس سرکاری ہسپتال نہیں لیں گے اور اگر کوئی ڈاکٹر ایسا کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ایسا شرح اموات کو کم کرنے اور عوام میں شعور کی بیداری کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں تمام سرکاری ہسپتالوں کو زبانی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
اس فیصلے کی داد دینی چاہیے اور کیوں نہ دی جائے حکومت نے ملک کو جدید ترین ہسپتالوں سے بھر دیا ہے، ملک کے کونے کونے تک طبی سہولتوں کو پہنچا دیا ہے، جونہی کوئی ڈاکٹر بنتا ہے ڈگری ہاتھ میں آنے سے پہلے نوکری اس کا استقبال کرتی ہے۔ ہر ڈاکٹر دیہات میں جا کر خدمت کرنے کے لیے ہی تو پڑھتا ہے ۔ اس لیے دیہات میں ڈاکٹرز اور جدید ہسپتالوں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ علاج کی مفت سہولتوں کے ساتھ غریبوں کو مہنگی ادویات بھی مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر گائناکالوجسٹ دیہات میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ علاج معالجہ کی ایسی بہترین سہولتوں کے ہوتے ہوئے ناسمجھ پاکستانیوں کا دائیوں اور عطائیوں کے پاس جانا اور زچہ و بچہ کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
حکومت نے دوران پیدائش ہونے والی اموات کی وجہ دائیوں کو قرار دیتے ہوئے یہ اہم قدم اُٹھایا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دیہی علاقوں میں مرکز صحت قائم کرنا ان دائیوں کی ذمہ داری ہے؟ کیا قصبوں اور دیہات میں اچھے ہسپتال بنانا اور اچھے ڈاکٹرز مہیا کرنا عطائیوں کا فرض ہے؟ کیا صحت کی سہولتوں کی مفت فراہمی اور لوگوں کو بیماریوں سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر کی ذمہ داری بھی ان غریبوں پر عائد ہوتی ہے جنہیں بجلی کے بل چکانے کے لیے گھر کا سامان فروخت کرنا پڑتا ہے۔ ارباب اختیار کی فکر رسا کی تحسین کے لیے ہمارے قلم کو الفاظ نہیں مل رہے، ہمارے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ اس پر بھی شادی مرگ کی کیفیت طاری ہے …ع
ناطقہ سر بگریباں ہے کہ اسے کیا کہیے
ان اموات کی ذمہ دار حکومت اور محکمہ صحت خود ہیں۔ وہ اپنے جرم کو کسی بھی طرح کسی کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات ہر شخص تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ اس سے کسی بھی طرح نظر نہیں چُرا سکتی۔ دیہات میں صحت کی حالت قابل رحم ہے۔ ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کہیں کوئی ہسپتال موجود بھی ہے تو اس میں عملہ نہیں، سرکاری ہسپتالوں کی عمارتیں کہیں گر گئی ہیں تو کہیں ان میں گودام ہیں یا مویشی بندھے ہوئے ہیں۔ شہروں میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت بھی اتنی بُری ہے کہ ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹے ہوتے ہیں۔ صفائی کی صورتحال اتنی گندی ہے کہ آپریشن کے اوزاروں کو صحیح طرح سے صفائی کے عمل سے نہیں گزارا جاتا جس سے ہیپاٹائیٹس سی اور انفیکشن کے جراثیم پھیل رہے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال اتنے مہنگے ہیںکہ غریب آدمی ان میں جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ گائنا کالوجسٹ آپریشن کے کم از کم ساٹھ ہزار لیتی ہے۔ وہ غریب جو اپنے گھر کی دال روٹی بھی پوری نہیں کر سکتا وہ کس طرح ساٹھ ہزار خرچ کر سکتا ہے۔ ایسا حکومت تب کرتی جب صحت کے اچھے مراکز قائم کر چکی ہوتی، لوگوں کو مفت طبی سہولتوں کی فراہمی ہوتی اور اس وقت عوام کے پاس دائیوں کے پاس جانے کی کوئی وجہ باقی نہ رہتی۔ اس وقت وہ غریب جس کی اتنی استطاعت نہیں کہ وہ پرائیویٹ ہسپتال میں جا کر علاج کروائے اس کیس کو سرکاری ہسپتال بھی نہیں لے گا تو وہ غریب کدھر جائے؟ اس سے شرح اموات کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو گی۔ غریب کو اور مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ دیہات میں شہروں جیسی سہولیات کی فراہمی ہوتی، جگہ جگہ مراکز صحت قائم کیے جاتے، لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذریعہ دائیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے آگہی کی مہم چلائی جاتی، ہسپتالوں کی عمارتوں کی تعمیر کی جاتی، ان میں عملہ اور مشینری فراہم کی جاتی، اچھے آپریشن تھیٹرز بنائے جاتے۔ دائیوں، جعلی ڈاکٹروں اور نرسوں کے خلاف کارروائی کی جاتی مگر حکومت کا یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ بچوں کی اموات کی ذمہ دار دائیاں ہیں۔ پوری دنیا میں زچہ اور بچہ کی صحت کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، ان کو عزت دی جاتی ہے ان کے لیے نئے نئے پروگرام متعارف کروائے جاتے ہیں کیونکہ آنے والے بچے اس قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں مہذب معاشروں میں حکومت انکے لیے وظائف مقرر کرتی ہے، مفت ڈلیوری سے لے کر بچے کے چار سال کی عمر تک اس بچے کے دودھ کا خرچ حکومت ادا کرتی ہے، زچہ کے شوہر کو دفتر سے ایک ماہ سے لے کر چار ماہ تک تنخواہ سمیت چھٹی ملتی ہے تاکہ اس وقت میں والدین مل کر بچے کی دیکھ بھال کر سکیں۔ اگر عورت حاملہ ہے تو وہ 6 ماہ تک کی چھٹی تنخواہ سمیت لے سکتی ہے۔ سپیشل کیئر سینٹرز ہیں جن میں ان خواتین کی ڈلیوری کے بعد تھراپیز کی جاتی ہیں۔ ایسے معاشروں میں نہ صرف شرح اموات پر قابو پایا جاتا ہے بلکہ وہ اپنی قوم کو صحت مند مطمئن اور خوشحال نسلیں دیتے ہیں تاکہ یہ صحت مند اور مطمئن لوگ ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں مگر پاکستان میں ہمیشہ اسکے بر عکس ہوتا ہے۔ مسائل کو کم کرنے کی بجائے غریب کو مزید مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہے، حکومت کا یہ فیصلہ لوگوں کے مسائل میں مزید اضافہ کرے گا۔ حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے کیونکہ ایسے فیصلے اس وقت کیے جاتے ہیں جب آپ نے اپنی طرف سے ہر سہولت فراہم کی ہو۔ جب ایسا نہیں تو عوام کی مشکلات میں اضافہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔