سماجی اخلاقیات کی عالمگیر اہمیت
ماہرین اخلاقیات نے اخلاقِ انسانی کی کئی اقسام بیان کی ہیں۔ یونانی فلاسفر سقراط، افلاطون اور ارسطو نے اخلاقیات و سماجیات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ارسطو کی اخلاقیات پر ایک مبسوط تصنیف بھی موجود ہے۔ تمام فلاسفر اور پیغمبروں نے اخلاقیات کا درس دیا ہے۔ اُن کی تحریروں کا بنیادی نکتہ فلاح انسانیت ہے۔ انسان کی خدمت اور عظمت تمام خدائی اور انسانی نظام ہائے فکر کی بنیاد ہے۔ یہ سیاسی اخلاقیات ہوں یا اقتصادی اخلاقیات، یہ سماجی اخلاقیات ہوں یا مذہبی اخلاقیات ان تمام کا تعلق انسانی سماج کی بہتری سے ہے اسی لئے سماجی اخلاقیات کے ارد گرد تمام مکتبہ ہائے فکر محوِ گردش ہیں۔ جس معاشرے میں انسان کی عظمت کا تصور ناپید ہو وہ حیوانی معاشرہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک نمازی اور پرہیزگار انسان نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد کی طرف جا رہا ہے، راستے میں وہ دیکھتا ہے کہ ایک بچہ پانی کے تالاب میں گر گیا اور غوطے کھا رہا ہے یا کوئی شخص موٹر کار کی زد میں آ کر سڑک پر زخمی حالت میں پڑا ہے اب اگر نمازی ایک انسان کی جان بچانے کیلئے اس کی مدد کرتا ہے اور بعد میں نماز قضا ادا کرتا ہے تو گویا اُس نے قرآن مجید کے حکم کی تعمیل کی جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔‘‘ نماز کی تو قضا ہے لیکن مرتے انسان کو موت کے منہ میں دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لینے کی کوئی قضا نہیں۔ اگر ایسی صورت میں ایک زاہدِ اور عابد یہ سوچے کہ نماز فرض ہے چلو چل کر نماز پڑھتا ہوں یہ زخمی انسان مرتا ہے تو مرے میرا اس سے کیا لینا دینا تو اس انسان نے مذہبی اخلاقیات کے ساتھ ساتھ سماجی اور انسانی اخلاقیات کی بھی نفی کی ہے۔ بقول الطاف حسین حالی …؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
مسلمانوں کے ہاں یونانی، ہندی، اور عجمی تصوف نے انہیں عملی اور انقلابی زندگی سے دور کر دیا، ذاتی نجات کے تصور نے انہیں اجتماعی نظام سے بے بہرہ کر دیا۔ میرے ایک دوست جو آجکل چہرے پر گھنی ریش سجائے اور ہاتھ میں تسبیح تھامے رہتے ہیں آخرت کی فکر میں دنیا سے بے نیاز ہیں۔ وہ نوافل اور مناجات کی دنیا میں گم اور اپنی اولاد اور خاندان کے معاملات سے بھی بیگانہ ہو چکے ہیں، گویا عملی طور پر رہبانیت اختیار کر چکے ہیں۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ اسلام میں دین و دنیا میں توازن قائم کرنا لازمی امر ہے۔ بقول عطار …؎
اے پسر از آخرت غافل مشو
بر متاعِ ایں جہاں، خوشدل مشو
آخرت سے غافل ہونا اور متاعِ دنیا میں دل لگانا بلاشبہ درست نہیں ہے مگر دنیاوی معاملات کو بقولِ اقبال ’’از کلیدِ دیں درِ دنیا گشاد‘‘ والا معاملہ بھی زیر نظر رکھنا سُنتِ رسولؐ ہے۔ حدیث رسولؐ ہے ’’جس نے دنیا کیلئے آخرت کو ترک کر دیا اور جس نے آخرت کیلئے دنیا کو ترک کر دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ گویا دین و دنیا میں توازن برقرار رکھنا نظامِ عدل و اعتدال ہے۔ قولِِ پیغمبرؐ ہے ’’اسلام میں رہبانیت نہیں۔‘‘ جو شخص معاشرے کی فلاح و اصلاح سے بیگانہ ہے وہ اسلام سے بھی بیگانہ ہے اسی لئے پیغمبر اسلام نے سماج کیساتھ مربوط رہنے کی تلقین فرمائی اور جماعت کے ساتھ رابطے کا حکم دیا۔ حضرت سلیمانؑ کے صحیفہ بعنوان ’’ضرب الامثال‘‘ بھی دین و دانش کا گلدستہ ہیں۔ ظالمو، گناہ گاروں اور بدکاروں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ انجیل مقدس میں بھی شریعتِ موسوی کے احکامات کی تائید کی گئی ہے۔ لوقا کی انجیل بنیادی الہامی اخلاقیات کی تائید کرتی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں بھی احکاماتِ تورات کی حمایت کی گئی ہے اور اخلاقیات و انسانیت کی حمایت میں آیات نازل ہوئیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 62 میں مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور صابیوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اصل معاملہ تو نیک اعمال کا ہے۔ مسئلہ خیر و شر کا ہے۔ عقائد اور فروعات کی جنگ بیکار ہے۔ پیغمبر اسلامؐ ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ کے اسوۂ حسنہ کو نشان راہ و منزل بنا دیا گیا۔ سورۃ قلم کی آیت نمبر 4 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’(اے رسولؐ) اور آپ یقیناً عظیم الشان خُلق پر قائم ہیں۔‘‘ سورۃ بقرہ میں قولِ حق کا حکم دیا گیا۔ گویا یہ توریت ہو یا انجیل، یہ زبور ہو یا قرآن، احکاماتِ خیر و شر واضح ہیں لہٰذا ان احکامات پر عمل کرنا ہی مقصد و مدعائے دین ہے۔ فقہی، مسلکی اور تاریخی تنازعات کا خدا کے پیغام سے کوئی تعلق نہیں۔اب آئیے فلاسفہ کی تعلیمات کا جائزہ لیں۔ سقراط اخلاقیات کا زبردست حامی و حمایتی تھا۔ فرانس کا فلسفی برگساں سماجی اخلاقیات کا داعی تھی۔ کئی ایسے مفکرین جو خدا کے وجود کے انکاری تھے وہ بھی سماجی اخلاقیات سے انکار نہ کر سکے۔ روس کا بانی انقلابِ اشتراکیت لینن اور چین کا بانی انقلاب اشتراکیت مائوزے تنگ بھی سماجی ضابطوں اور اخلاقیات کے حامی تھے۔ شادی کی رسم مذاہب عالم میں ایک مذہبی پیمان ہے لیکن دہریوں اور لادینوں کے ہاں یہ رسم ایک سماجی پیمان یا بندھن ہے جس کا احترام لازمی امر ہے۔ گویا مذہبی اور سماجی اخلاقیات ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اس ضمن میں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا اشد ضروری ہے اور وہ یہ کہ تمام بنی نوع انسان خدا کی مخلوق اور الطاف حسین حالی کے الفاظ میں اللہ کا کنبہ ہیں۔ رنگ و نسل، مذہب و مسلک، فرقہ و علاقہ کی تفریق پر انسان سے نفرت کرنا برنامۂ شیطان ہے یہ سرنامۂ یزدان نہیں۔ راہبوں، پنڈتوں، پادریوں، بھکشوں اور مولویوں کا یہ بیان و اعلان ہے کہ وہ مذہب کی خدمت کر رہے ہیں حالانکہ مذہب انکی خدمت کر رہا ہے۔ مذہب کی خدمت صرف اور صرف انسان کی خدمت ہے۔ مذہب کے نام پر فرقہ بازی، شدت پسندی، دہشت گردی اور خونریزی فساد فی الارض کے مترادف ہے۔ روحانیت اور سماجی اخلاقیات کو یک رنگ و ہم آہنگ کر دو اور حقوق انسانی کی جنگ لڑو، یہی جہاد ہے۔ بقول خلیل جبران ’’ساری زمین میرا وطن اور تمام انسان میرے ہم وطن ہیں۔‘‘ آخر میں اپنی ایک پرانی غزل کا مطلع پیش قارئین اور نذر شائقین …؎
اے شیخ تُو کیسا انساں ہے انساں کی تُجھے پہچان نہیں
مذہب تو برائے انساں ہے مذہب کیلئے انسان نہیں