ہم اسے یاد کرتے ہیں، روتے ہیں اور ہنستے ہیں
30 نومبر کو کیا ہو گا۔ یہ سوال پچھلے کئی دنوں سینکڑوں خواتین و حضرات نے مجھ سے پوچھا۔ آج 30 نومبر اور مجھے ابھی تک نہیں پتہ؟ پتہ ہے مگر بتا نہیں سکتا۔ ٹی وی چینل کی چیخ و پکار سے بھی کوئی آواز سماعت تک سلامت نہیں پہنچتی۔ جو ہونا ہو گا وہ ہو جائے گا۔ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ بہت کچھ ہو جائے گا۔ سب کو پتہ ہے اور کسی کو پتہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ عمران خان کو پتہ ہے اور نہ چودھری نثار کو۔ دو آدمیوں کو پتہ ہے اور وہ دونوں رشید ہیں۔ شیخ رشید اور پرویز رشید، دونوں کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے۔ عمران خان سرخرو ہو یا سرگرداں ہو شیخ رشید کی ہا ہا کار جاری رہے گی۔ نواز شریف سرخرو ہو یا سرنگوں ہو۔ پرویز رشید کی عیش ہی عیش ہے۔ دونوں رشید ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ایکدوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھی عمران اور نواز شریف کی پسند و ناپسند ایک بھی ہو جاتی ہے۔
آج اس پار جانے والے فنکار اور پروفیسر کالم نگار اور دانشور کمپیئر اور بہت دوست دلدار بھٹی کی سالگرہ ہے۔ اکتوبر کی انہی تاریخوں میں اس کی برسی ہوتی ہے۔ وہ انگریزی پڑھاتا تھا۔ اردو میں کالم لکھتا تھا اور پنجابی میں کمپیرنگ کرتا تھا۔ تینوں زبانوں پر اسے یکساں عبور تھا۔ ہم اسے یاد کرتے ہیں۔ روتے اور ہنستے ہیں۔ کبھی ویران جزیرے میں وہ خوبصورت بڑھیا اس کی سہیلی بن گئی جو کسی آدمی کو دیکھتی تو پہلے ہنستی تھی، پھر روتی تھی۔ بڑے دنوں کے بعد کسی انسان کا چہرہ دیکھا مگر ابھی جن آئے گا اور تمہیں کھا جائے گا۔ دلدار نے اسے کہا اے سوہنی بڑھیا میں بھی یہی کام کرتا ہوں۔ جن کو آنے دو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔ اسی جن نے دلدار کو کوئی چراغ دیا تھا۔ وہ سٹیج پر آتا تو لوگوں پر جادو ہو جاتا تھا۔ وہ اس کی کسی بات پر ناراض نہ ہوتے تھے۔ ایک بار مجھے مسرت شاہین نے کہا کہ تم دلدار سے میری سفارش کرو وہ مجھے سٹیج پر بلائے تو ہتھ ہولا رکھے۔ وہ ان دنوں کچھ زیادہ موٹی تھیں۔ دلدار نے اسے بڑی محبت سے سٹیج پر بلایا۔ وہ خوش ہو گئی کہ بچ گئی مگر جب وہ سٹیج سے اتر کر اپنی نشست پر جانے لگی تو دلدار نے مائیک پر کہا یہ مسرت شاہین تھی جسے آپ نے سنا اور دیکھا۔ وہ سٹیج پر آتے ہوئے اچھی لگ رہی تھی جاتے ہوئے تو اور بھی اچھی لگ رہی تھی۔
دوسروں کی خبر رکھنے والے نے اپنی خبر کبھی نہ لی۔ وہ پریشان کر دینے والی دنیا میں وہ ایسا آدمی تھا کہ حیران کر دیتا تھا۔ لوگ اسے سن کر خوش ہوتے تھے اور کھو بھی جاتے تھے۔ ایسی لگن اس کے پاس تھی کہ وہ سب کی تھکن اتار دیتا تھا اور مگن کر دیتا تھا۔ وہ دوسروں کی زندگی کی خبر رکھتا تھا اور اسے اپنی موت کی خبر بھی تھی۔ موت عجب حقیقت ہے ہم نے تلخ حقیقت بنانے کی کوشش کر رکھی ہے۔ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ہم کبھی نہیں مریں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ابھی نہیں مریں گے۔ کبھی اور ابھی میں فاصلہ بڑھاتے رہتے ہیں مگر فیصلہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے جو فیصلہ کن ہوتا ہے تو دلدار بھٹی ابھی نہیں مرا۔ وہ کبھی نہیں مرے گا۔ کبھی اور ابھی یکجان ہو گئے ہیں۔
حیرت ہے کہ میڈیا نے اتنے بڑے آدمی، ناقابل فراموش اور مقبول بلکہ محبوب شخص کے حوالے سے خبر تک نہیں لگائی۔ کوئی پروگرام بھی نہیں کیا۔ انڈیا کی کسی ادھوری اداکارہ کی سالگرہ ہو تو کئی پروگرام ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے میڈیا کو کیا ہو گیا ہے۔ دلدار خود میڈیا کا آدمی تھا۔ یہ بے توجہی اور لاپروائی ناقابل معافی ہے۔ میڈیا کو اس کی تلافی کرنا چاہئے۔
دلدار کو جینے کی بھی جلدی تھی اور مرنے کی بھی جلدی تھی۔ وہ جلدی میں ہوتا تھا مگر جلد باز نہ تھا۔ یہ کس قسم کی جلدی تھی۔ دلدار بھٹی توفیق بٹ اور میں کسی ہموار راستے پر ہولے ہولے جا رہے تھے۔ ہمیں کہیں نہیں پہنچنا تھا۔کسی نے کہا کہ آﺅ میں آپ لوگوں کو چھوڑ آتا ہوں۔ دلدار نے بے نیازی سے سجی ہوئی محبت سے اسے دیکھا اور کہا تم جاﺅ ہمیں ذرا جلدی ہے۔ یہ کیا جلدی تھی؟
امریکہ سے نعمت اللہ صاحب ہر سال آتے ہیں اور دلدار کے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔ دوستوں نے عمران خان کا ذکر بھی کیا۔ انہی کے ہسپتال شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ کے لئے دلدار امریکہ گیا تھا۔ آج تک اس نے کبھی دلدار فیملی کو پوچھا نہیں ہے۔ تبدیلی آ گئی ہے؟ مگر عمران خان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ شجاعت ہاشمی، شوکت علی، توفیق بٹ، طاہر سرور میر، ناصر نقوی، فراز بھٹی نے گفتگو کو آگے بڑھایا۔ افتخار مجاز نے کمال کر دیا۔ معروف شاعرہ فاخرہ انجم کی ایک نظم ہے جو دلدار کو یاد کرنے میں ہماری مددگار ہے:
وہ جو دلدار تھا سب کا وہی غمخوار تھا سب کا
ہنساتا تھا ہمیں ہر پل ہمارے دل میں رہتا تھا
سبھی دکھ ہنس کے سہتا تھا
ابھی تو اس کو جینا تھا غموں کو ہنس کے پینا تھا
محبت بانٹنی تھی اپنے پیاروں میں وفا کی آبشاروں میں
ہزاروں خواب تھے جن کو ابھی تعبیر ہونا تھا
اسی کے ہاتھ سے عہد ادب تعمیر ہونا تھا
ابھی تو پھول کھلنے تھے ہزاروں راہ میں اس کی
ابھی تو خوشیاں بیٹھی تھیں بہت سی چاہ میں اس کی
ادھورا رہ گیا سب کچھ نہیں باقی بچا اب کچھ
بچھڑ کے اس سے ہر جانب اداسی رہ گئی ہے
تمنا اس کی خوشیوں کی بھی پیاسی رہ گئی ہے
تسلی کے سبھی الفاظ اب تو جھوٹے لگتے ہیں
اکھٹے بیٹھ کے ہم سب بھی اکثر روٹھے لگتے ہیں
بہت ڈھونڈا مگر اس غم کی کوئی حد نہیں ملتی
کوئی سرحد نہیں ملتی