• news

سارک اور بے اصولی پر مبنی بھارتی موقف

18ویں سارک سربراہ کانفرنس کا اختتام پاک بھارت وزرائے اعظم کے مصافحہ پر ہوا۔ اس سے پہلے سارک سربراہ کانفرنس میں شمولیت کی خاطر نیپال پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگرچہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہے مگر اس کی پہل اب بھارت کو کرنا ہو گی کیونکہ بھارت کی جانب سے ہی باہمی مذاکرات کا سلسلہ منقطع کیا گیا تھا اور پوری کانفرنس کے دوران نواز شریف بڑی حد تک اپنے اس مو¿قف پر قائم رہے اور یوں مودی کو اپنے رویے میں لچک پر مجبور ہونا پڑا۔ یاد رہے کہ جنوری 2002ءمیں جب کھٹمنڈو (نیپال) میں ہی 11ویں سارک سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی، تب بھی پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار تھے اور کانفرنس کے دوران پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کی سیٹ پر خود جا کر یکطرفہ طور پر مصافحہ کیا تھا اس کے باوجود بھارتی سرد مہری برقرار رہی اور تقریباً ایک سال تک بھارت کی 10 لاکھ فوج جارحانہ انداز میں پاکستان کی سرحدوں پر تعینات رہی مگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی بنا پر بعد از خرابی بسیار انڈین آرمی کو اپنے عزائم ترک کر کے واپس ہوا پڑا۔ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے خود بھارت کے چند امن پسند دانشوروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ”اگر واقعتاً بھارت کی خواہش ہے کہ یورپی یونین اور آسیان کی مانند سارک تنظیم بھی ایک مو¿ثر علاقائی تعاون کے ادارے کے طور پر اُبھرے اور اس میں بھارت کا کردار بھی خاصا مو¿ثر ہو تو کیا پاکستان کی فعال شرکت کے بغیر اس امر کے ذرہ برابر بھی امکانات موجود نہیں؟ کیونکہ کسے پتہ نہیں کہ جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان ہی دو اہم ترین ممالک ہیں اور ان کے مابین باہمی بات چیت تک کا رشتہ نہیں ہو گا تو سارک کو مو¿ثر بنانے کا آخر کونسا فارمولا ہے؟“ کثیر الاشاعت ہندی روزنامہ ”امر اُجالا“ کی 30 جنوری 2003ءکی اشاعت میں کلدیپ نیئر کا ایک مضمون بعنوان ”بے اصولی پر مبنی بھارتی مو¿قف“ شائع ہوا جس میں لکھاگیا تھا کہ ”پتہ نہیں ہماری (بھارتی) سرکار یہ کیوں دکھا رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کر کے وہ اس پر کوئی بڑا احسان کرے گی۔“ دوسری جانب حالیہ صورتحال میں بھی ”اجے شکلا“ نامی ایک ہندو دانشور کی تحریر میںکہا گیا ہے کہ ”یہ رویہ اس حکومت کا ہے جس کے سربراہ مودی ہےں، جنہوں نے مئی 2014ءمیں اپنا عہدہ سنبھالنے کی تقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیراعظم کو باقاعدہ شرکت کی دعوت تک دے ڈالی تھی اور جس میں پاکستانی وزیراعظم بہت سے تحفظات کے باوجود شریک بھی ہوئے مگر اسے دہلی سرکار کا ذہنی دیوالیہ پن ہی کہا جا سکتا ہے کہ بعد میں مودی حکومت نے نارمل تہذیب و شائستگی کا دامن بھی چھوڑ دیا اور 25 اگست کو طے شدہ خارجہ سیکرٹری مذاکرات کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا۔“ اس دوران پاکستانی رہنما بار بار اس خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہ باہمی مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں مگر بھارتی پردھان منتری دوسرے ملکوں کے رہنماﺅں سے تو بات چیت کرنے پر بصد شوق آمادہ ہیں مگر پاکستانی قیادت سے نہیں ملنا چاہتے۔ کسی بھی مہذب نارمل معاشرے میں اس بھارتی رویے کو تحقیر آمیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور پاکستان دشمنی کا یہ رویہ بالآخر خود ہندوستان کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لئے بھارت سرکار کو اپنے رویے میں لچک لانی ہو گی اور اگر جنوبی ایشیائی خطے میں علاقائی تعاون کے خواب کو واقعی شرمندہ تعبیر کرنا بھارت سرکار کا مقصد ہے تو اسے جرمنی اور فرانس سے سبق حاصل کرنا ہو گا، جنہوں نے یورپی یونین کو اس سطح تک لانے میں نہ صرف اپنی روایتی دشمنی کو خیر باد کہا بلکہ خطے کے دو اہم ترین ملک ہونے کی حیثیت سے جرمنی اور فرانس نے ایک سے زائد مرتبہ چھوٹے پڑوسی ممالک کے حق میں اور ایک دوسرے کی خاطر بھی قربانیوں اور ایثار کا مظاہرہ کیا۔ بہرکیف اگر مودی سرکار نے بدلتی ہوئی عالمی فضا کا خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا تو یہ اس کی عاقبت نااندیشی ہو گی اور یہ امر بھی مسلمہ حقیقت کا حامل ہے کہ پاکستان کو چڑا کر یا اشتعال دلا کر بھارت کسی بھی طور مو¿ثر عالمی قوت بننے کا اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ تاحال تو دہلی کے حکمرانوں نے خاصا ہٹ دھرمی کا رویہ اپنا رکھا ہے اور اس طرح وہ واجپائی کی ایک نظم ”پربھو! (بھگوان) مجھے اتنی اونچائی مت دینا کہ میں جھک کر دوسروں کو اپنے گلے نہ لگا سکوں“ کی اپنے عمل سے نفی کرتے نظرآتے ہیں اور اپنی خود ساختہ بڑائی کے زعم میں زمینی حقائق کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔
بہرحال توقع کی جانی چاہیے کہ مودی اور ان کے ہمنوا ان انسان دوست بھارتی دانشوروں کے مشورے پر کان دھرتے ہوئے مثبت طرز عمل اپنائیں گے اور کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے منصفانہ حل کی خاطر ٹھوس اور نتیجہ خیز پیشرفت کریں گے اور اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کا آغاز کر کے جنوبی ایشیا میں حقیقی تعاون کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار بہتر ڈھنگ سے ادا کریں گے کیونکہ پاکستان کی حکومت اور عوام تو ہمیشہ سے امن و سلامتی پر مبنی ماحول قائم کرنے کی خواہش اور کوشش کرتے رہے ہیں مگر اس سلسلے میں تنازعہ کشمیر کو وہاں کے عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب نظر آنے والی پیشرفت کے بغیر جنوبی ایشیا امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا اور اس کے ساتھ پاکستانی قیادت کو محض مودی کے مصافحہ کرنے کو لے کر کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان کی بابت بھارتی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور وطنِ عزیز کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان میں بھارتی شہ پر جاری سازشیں اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ دہلی کے حکمرانوں سے مضبوط لیکن محتاط حکمت عملی کے تحت روابط استوار رکھے جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن