اجتماعی سیاسی قبر
یہ 30نومبر بھی گزر گیا مگر مشکل گھڑی 5 دسمبر کا دن ہے جس روز تک اگر مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی نہ ہوئی تو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جسٹس انور ظہیر جمالی کو قائمقام چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے بذریعہ انتظامی حکم واپس بُلا لیا جائے گا۔ ایسا کرنے کی آئینی گنجائش پر بات بعد میں ہو گی پہلے جائزہ کچھ ان حالات کا کہ جس کے باعث سپریم کورٹ کو پہلی بار یہ حکم جاری کرنا پڑا۔ سال 2013ءکے انتخابات سے پہلے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قومی جوڈیشل پالیسی کمیٹی میں محض ایک بار انتخابات کے لئے عدلیہ کے افسران فراہم کرنے سے متعلق الیکشن کمشن کی درخواست منظور کر لی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ درخواست بھی سپریم کورٹ کے ہی ایک جج جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بطور قائمقام چیف الیکشن کمشنر منظور کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور سیکرٹری کمشن اشتیاق احمد خان بھارت کے ایک ہفتے کے دورے پر ملک سے باہر تھے۔ اس کے بعد وکلا تحریک کے ہیرو جسٹس افتخار محمد چوہدری جو بظاہر عدم تحفظ اور شوق تشہیر کا شکار تھے انہوں نے الیکشن کمشن کے حوالے کئے گئے عدلیہ کے افسران سے خطاب کا سلسلہ شروع کر دیا جو یقیناً نامناسب تھا۔ اس دوران یہ بھی طے نہیں کیا گیا تھا کہ عدلیہ سے آئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسران کس کو جواب دہ ہوں گے۔ الیکشن کمشن کو یا اپنی ہائیکورٹوں کو۔ اور پھر آزاد عدلیہ کے ان افسران نے کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران جس طریقے سے امیدواروں کی مسلمانیت کا ڈاکٹری معائنہ شروع کیا وہ کسی کامیڈی ڈرامے سے کم نہیں تھا۔ اس سب کے پیچھے جناب افتخار محمد چوہدری صاحب کی مسلمانی اور نیت کیا تھی اس کا اندازہ لگانا بھی اتنا آسان نہیں جتنا عمران خان سمجھتے ہیں۔ مگر پھر بھی بیلٹ پیپروں کی اضافی اشاعت کے سنگین الزامات، انتخابی عذر داریوں کے ٹربیونلوں میں بروقت فیصلوں میں ناکامی اور حکومت کا ان معاملات کی تحقیقات میں لیت و لعل سنجیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔
ایسی صورت میں تمام نگاہیں وزیراعظم نواز شریف کے چیف جسٹس ناصر الملک کو لکھے گئے اس خط پر مرکوز ہیں جس کا جواب نہیں آیا۔ وزیراعظم نے 14 اگست کی انصافی یلغا رسے ایک دن پہلے عمران خان کے الزامات کی عدالتی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس سے تین ججوں کے نام مانگے تھے۔ اس وقت سے آج تک نہ تو حکومت نے چیف جسٹس کو یاد دہانی کا کوئی خط لکھا اور نہ ہی چیف جسٹس نے اس کا جواب دیا۔ چیف جسٹس کی خاموشی کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کہ کسی بھی عدالتی کمیشن نے آخر اس الیکشن کمشن کی ہی تحقیقات کرنی ہیں جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے جج جسٹس انور ظہیر جمالی کر رہے ہیں۔ آخر سپریم کورٹ کے تین جج اپنے ایک ساتھی جج کی سربراہی میں کام کرنے والے افسران کی کیسے تحقیقات کریں کیونکہ 2013ءکے الیکشن کا تمام ریکارڈ تو موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو ہی فراہم کرنا ہو گا۔ قائمقام چیف الیکشن کمشن کا عہدہ عمران خان کو بھی پسند نہیں جنہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر جسٹس تصدق حسین جیلانی پر سرعام عدم اعتماد کیا صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے بطور قائمقام چیف الیکشن کمشنر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بذریعہ خط عدلیہ کے افسران کی زیر نگرانی انتخابات کرانے کی استدعا کی تھی جسے آج عمران خان ایک سازش کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ عمران خان خود بھی الیکشن سے پہلے عدلیہ کی زیر نگرانی انتخابات کا مطالبہ کرتے رہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اس فیصلے اور شوق تشہیر و تقریر نے آج عدلیہ کو ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جس کے دونوں اطراف بدنامی اور ہزیمت ہے۔ عدم تحقیقات الزامات کی تصدیق تصور ہو سکتی ہیں اور درست تحقیقات کی صورت میں کمشن کے گورکنوں کو خود عدلیہ کے افسران کی بھی قبریں کھودنا پڑیں گی۔ یہ اور بات ہے کہ یہ قبریں سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کی بھی ہو سکتی ہیں۔ اصولی طور پر ایسی لاشوں کو جلد ہی دفنا دینا چاہئے مگر ایسا تب ممکن ہے جب کم از کم حکومت کی طرف سے مستقل چیف الیکشن کمشنر تعینات کر دیا جائے تاکہ سپریم کورٹ کے کسی معزز جج کو بطور قائمقام چیف الیکشن کمشنر اپنے ناکردہ گناہوں کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے اور پھر کنٹینر سے یہ آوازیں آئیں کہ ایک اور قائمقام چیف الیکشن کمشنر نے ایک اور چیف جسٹس سے مل کر حقائق کو دفنا دیا۔ شاید انہی ممکنات کے پیش نظر موجودہ چیف جسٹس ناصر الملک نے تنگ آ کر ایسا فیصلہ دیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر عجب تو تب بھی ہوا جب سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے قائمقام چیف الیکشن کمشنر بننے سے انکار کیا باوجود اس کے کہ آئین کے مطابق چیف جسٹس سینئر ترین جج کو قائمقام چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے کا پابند ہے مگر پھر قانون اور عدالتی روایات میں جج کو ذاتی یا پیشہ ورانہ وجوہات کی بنا پر کوئی کیس سُننے یا کسی تحقیقات کا حصہ بننے سے انکار کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اب جس طرح کی الزام تراشی اور زبان کنٹینر پر نظر آ رہی ہے اس کے بعد کون عزت دار معزز جج ایسی تحقیقات یا ایسے عہدے پر حامی بھرے گا۔ لگتا یوں ہے کہ صحیح تحقیقات کی صورت میں بہت سی سیاسی لاشیں گریں گی اور شاید گورکنوں کے لئے علیحدہ علیحدہ قبریں کھودنا بھی ممکن نہ ہو۔ ایک اجتماعی قبر کی ضرورت پڑ سکتی ہے امید صرف اتنی ہے کہ اس کام کے لئے بھی آئین کی شق 245 کی ضرورت نہ پڑے۔ جب وبا پھیل جائے تو پھر علیحدہ قبروں کا وقت نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا اصل امتحان بڑے بڑے جلسے کرنا نہیں بلکہ مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات میں کھلے دل سے ثبوتوں کے ساتھ پیش ہو کر جمہوریت کو نسل کشی سے بچانا ہے۔ ایک آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کے لئے کم از کم تحریک انصاف کو مبینہ دھاندلی سے متعلق عوامی عدالت کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے بند کرنا ہو گی ورنہ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا کوئی بھی جج ان تحقیقات کے لئے راضی نہ ہو۔