خورشید شاہ سے سکندر بوسن تک!
حُسنِ اتفاق ہی سمجھیں کہ اچانک دل چاہا کہ کچھ سیاستدانوں کا حُسن حُسنِ بیان تک دیکھیں تاکہ حسن ظن کا فلسفہ اور اہمیت کچھ دیر ہی تک سہی‘ لیکن رہے تو۔ کشمیر ہاﺅس میں چیف سیکرٹری آزادکشمیر عابد علی سے ملنے کے بعد جب چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار سے بھی مل لیا تو دفاع کے پارلیمانی سیکرٹری و ممبر قومی اسمبلی چودھری جعفر اقبال جونیئر کی دعوت پر اسمبلی سیشن کی چمک دمک اور رمک دیکھنے قومی اسمبلی کی جانب چل نکلے۔ جب کبھی لاہور سے اسلام آباد جائیں تو تمنا یہی ہوتی ہے کہ ایک دن میں سب کام سمیٹ کر لاہور واپس پہنچا جائے۔ بلاشبہ اسلام آباد حسن کے اعتبار اور دلکشی کے تناظر میں زبردست شہر ہے‘ لیکن اس شہر اقتدار میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف والوں کیلئے تو رعنائی ہے مگر ہم عوام کیلئے شاید وہ شگفتگی‘ موسیقیت اور وسعتِ و اماں نہیں ہے۔ حکومتی رنگینی اور سنگینی کے بجائے ہمیں عوامی مہک زیادہ اچھی لگتی ہے۔ وہ چاہے کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور میں ہو۔ پھر”لہور تے لہور اے۔“بقول فیض....
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فرو زاں ہوئے تو ہیں
سیاستدانوں کی باتوں سے قبل تھوڑی سی بات ایک ادارے کی بھی ہو جائے‘ جہاں پارلیمنٹ کی باتیں ہوتی ہیں۔ وہاں اگر پارلیمانی خدمات کیلئے بنائے گئے ایک ”بے بی انسٹیٹیوٹ“ کو فراموش کر دیا تو کیا کیا۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے پارلیمانی سروسز (PIPS) کو”بے بی“ اس لئے نہیں کہا کہ یہ کوئی شیرخوار ادارہ ہے یا عمارتی رنگ و نسل میں اس کا قد کاٹھ چھوٹا ہے۔ نہ یہ اہمیت کے اعتبار سے بونا یا بچہ ہے‘ تاہم ”بے بی“ اس لئے کہا کہ عمر کے اعتبار سے یہ کل کی پیداوار ہے۔ سابق زرداری حکومت کی اچھی سوچ اور عمدہ پیداوار ہے‘ شرط اس کی اچھائی اور بڑائی کیلئے صرف یہ ہے کہ پارلیمنٹیرین یا پارلیمنٹ اس سے استفادہ بھی تو کرے۔ اس کی وسیع و عریض جدید منزل‘ ریسرچ‘ سنٹرز‘ تحقیقی کتب خانوں اور جدید سیمینار رومز سے مستفید اور مستفیض بھی تو ہوا جائے۔ راقم اور جعفر اقبال جب کشمیر ہاﺅس سے واپس نکلے تو اسی راستے پر اور اس کے پڑوس میں موجود اس عمارت کی دلکشی اور اہمیت نے ہمیں اندر آنے کی دعوت دی۔ وقار عباس (ڈپٹی ڈائریکٹر) اور قیصر اقبال (لائبریرین) کے ہم شکرگزار ہیں کہ انہوں نے سلیقے اور طریقے سے آراستہ سب چیزوں کا بتایا اور سمجھایا۔ بعدازاں وہ ایک افسرانہ آن بان والے کمرے میں لے گئے جہاں کا نازو نخرہ وہی روایتی بیور کریسی اور گردن میں سریئے والا تھا۔ کسی تحقیق کار والا حکیم و فہیم علیم نہیں۔ نہیں معلوم ہمارے اداروں میں پھٹے پرانے‘ ناک چڑھے اور ریٹائرڈ افسران کی جلوہ افروزی کیوں ضروری ہے؟ مانا کہ ان میں سے کچھ محمود سلیم محمود جیسے فرض شناس بھی ہوتے ہیں یہ صاحب ان دنوں PIPS کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ ”لائلپور“ سے تعلق رکھنے والے محمود سلیم محمود نے بتایا کہ وہ سیکرٹری پٹرولیم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اچھے افسر رہے ہونگے‘ کوئی شک نہیں‘ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ادارہ محض سفید ہاتھی ہی ہے یا کبھی پارلیمنٹ یا پارلیمنٹیرین نے اس ادارہ کی سروسز سے فائدہ بھی اٹھایا؟ آج کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ جو کل اقتدار والے تھے اور جنہوں نے اس ادارہ کو پروان چڑھایا اور سابق سپیکر محترمہ فہمیدہ مرزا نے گاہے بگاہے اس ادارہ سے خصوصی تعلق رکھا۔ کیا وہ بعد میں یہاں کبھی آئے؟ یہاں موجود ریسرچ آفیسرز کو کہا کہ ”ہمیں کسی چیز کی تاریخ‘ حالات و واقعات اور افادیت کا ڈیٹا نکال کر یا تیار کرکے بھجوائیں؟ جی ! وہ ہمارے پیارے وزیر جناب محترم عزت مآب سردار سکندر حیات بوسن جن کی وزارت میں بھی ”ریسرچ“ کا لفظ موجود ہے‘ وہ کبھی یہاں تشریف لائے؟؟؟ریسرچ سے یاد آیا کہ‘ پانچ یونیورسٹیوں کے نئے وی سی حضرات ڈاکٹر محمد علی شاہ (اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور)‘ ڈاکٹر فضل خالد (UET لاہور)‘ ڈاکٹر نیاز اختر (UET ٹیکسلا)‘ڈاکٹر ضیاءالقیوم (یونیورسٹی آف گجرات) اور ڈاکٹر قیصر مشتاق (GCU فیصل آباد) کیلئے استقامت کی دعا ہے اور ان سے التماس ہے کہ اداروں کو تحقیقی سنٹر بنائیں‘ 18 ویں ترمیم کے بعد بے سمت سیاستدانوں اور بیور کریسی کی نظر بد سے یونیورسٹیوںکو پرائمری سکولوں کی طرح کھنڈرات بننے سے بچائیں۔
کالم کے محور و مرکز خورشید شاہ اور سکندر بوسن اس لئے ہیں کہ ایک تو خورشید شاہ نے جمعہ 28 نومبر 2014ءکو ایک نہایت اہم نقطہ اٹھایا اور ساتھ ہی سکندر بوسن کی بحیثیت وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ تعریف و توصیف بھی کی۔ خورشید شاہ کی اس دن کی سب حرکات و سکنات کو میڈیا نے موضوع بنایا مگر افسوس کہ اس وقت کے سب سے بڑے جس مسئلے کا انہوں نے تذکرہ کیا‘ اس کا کسی ٹی وی یا اخبار میں کہیں دور دور بھی وجود نہ تھا‘ کہیں بہت دور ذکر آگیا ہو تو معلوم نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر‘ چیف الیکشن کمشنر.... کی بازگشت اور ورد تو ہر طرف تھا کیونکہ اس کے بننے کا براہ راست تعلق سیاستدانوں سے ہے مگر کسان اور مزدور جو اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جان ڈالنے اور جان بچانے میں پیش پیش ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کیلئے اپنی جان قربان بھی کر دیتے ہیں۔ اس کی فکر نہ میڈیا کو ہے نہ سیاستدانوں اور نہ افسر شاہی کو۔ یہاں فکر ہے تو جاگیردارانہ‘ زمیندارانہ اور سیاستکارانہ نظاموں کو بچانے کا۔ مزارعوں‘ کسانوں‘ مزدوروں کا فکر ان کی وزارتیں اور ادارے بھی نہیں کرتے۔ یہ موصوف وزیر‘ یہ پاسکو کا ادارہ جہاں کے ہیڈ آفس کے پروٹوکول‘ چمکتی دیواریں‘ آفس‘ بوائز سے چوکیداروں تک کے یونیفارم اور پاسکو ہیڈ آفس کی لش پش آخر کس لئے؟ پاسکو: پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن لمیٹڈ آپ ہی اپنے نام اور کام کے علاوہ اداﺅں پر غور کرے۔ ایم ڈی کیپٹن (ر) طارق مسعود ہم کچھ کہیں گے تو شکایت ہوگی۔ یہ ادارہ بھی کبھی 1973ءمیں بنا جب بھٹو حکومت تھی۔ کاش یہ وزیر و مشیر کبھی پاکستان بیورو آف سٹیٹیسٹکس سے استفادے کا بھی جانیں۔ زراعت ملک کا سب سے بڑا معاشی سیکٹر ہے۔ یہ جی ڈی پی کا 24 فیصد ہے۔ گندم‘ کپاس‘ چاول‘ گنا اور مکئی ہماری اہم فصلیں ہیں۔ چاول پیدا کرنے والا پاکستان دنیا میں 11 واں بڑا ملک ہے۔ باسمتی چاول میں پاکستان کا کوئی ثانی نہیں۔ پنجاب اور سندھ میں تقریباً 6 ملین ٹن چاول اگائے جاتے ہیں۔کیوں یہ حکمران اور ناسمجھ پالیسی ساز گوشئہ چاول سے گوشئہ گندم تک کو جلانے کے در پے ہیں؟
جہاں تحقیق کے بجائے طوطا مینا کی کہانیاں ہوں‘ جن ممالک کے کتب خانے سنسان ہوں‘ وہاں لوگ پریشان‘ ریاستی ادارے قبرستان‘ حکومتی تھنک ٹینک کے ذہن ویران اور پیداواری امور ریگستان ہوتے ہیں مگر بالا خانوں کی روشنیاں اور قندیلیں اس ملک کے کسان اور مزدور کے لہو سے چلتے ہیں۔
اک طرز تفافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
ایک ممبر قومی اسمبلی سے معلوم ہوا کہ سکندر بوسن کہتے ہیں کہ وزیراعظم سے رابطہ بڑا مشکل ہے۔ 1۔ گویا وفاقی وزیر میں قابلیت نہیں یا 2۔ وزیراعظم کے نزدیک اس وزارت کی اہمیت نہیں‘ کسی کی تیسری بات کا یہاں کوئی وجود نہیں۔ یہ کیسا دستور زباں بندی ہے۔ وزیراعظم کی محفل میں اور کیسی بے حسی ہے وزارتوں کی مجلس میں کہ کسانوں کا ایک گروہ روکھے سوکھے بوسن صاحب کو مل بھی لے تو وزیر خزانہ کے پاس وقت ہی نہیں کسانوں اور مزدوروں کی بات سننے کا۔ پھر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے پاس وقت نہ ہونا تو فطری بات ٹھہری۔ ایک کسان اللہ کے بھروسے پر مہنگی بجلی‘ مہنگا ڈیزل‘ مہنگی کھادوں اور مہنگی زرعی ادویہ جیسی آفتوں میں بیج بوتا ہے‘ انتظار کرتا ہے‘ مونجی اگاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاگت بھی پوری نہیں ہوگی۔ ایکسپورٹ کرنے سے حکومت قاصر‘ چاول خریدنے سے حکومت قاصر‘ پاسکو مفلوج اور وزارت خاموش‘ کسان کہاں جائے؟؟؟ سمجھ سے باہر ہے کہ کسان کے حق میں یہ بات کرنے کے بعد اسمبلی میںکھڑے ہوکر اپنی تقریر کے آخر میں خورشید شاہ نے بوسن صاحب کے حوالے سے یہ کیسے کہہ دیا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی تو وزیرعظم سے ملاقات تک کوشش رائیگاں چلی جاتی ہے۔ اسمبلی میںکھڑے ہوکر مولانا فضل الرحمن اور چند خواتین جب بیان کرتی ہیں اور ثبوت پیش کرتی ہیں کہ اسلام آباد میں کھلے عام بچوں کی ٹافیاں اور چاکلیٹ وہ بکتے ہیں جن پر لکھا ہے کہ الکحل اور پگ جلاٹین اس میں موجود ہے۔ حکومت جواب دیتی ہے کہ قانون بنائیں گے‘ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی مسئلہ ہے۔ فلاں فلاں اور وغیرہ وغیرہ۔ آہ! کس کس کے ہاتھ پر عوامی امنگوں اور اسلامی اصولوں کے لہو کو تلاش کریں؟؟؟
ایگزیکٹو ڈائریکٹر PIPS کا افسر شاہی سے پرانا تعلق ہے۔ یقینا سیاستدانوں سے بھی ”دیرینہ اور دیرپا“ تعلق ہوگا لہٰذا یہ اپنی تنخواہیں حلال کریں اور بوسن صاحب کو وزارت حلال کرائیں۔ انہیں کوئی ریسرچ پیپر بھیجیں کہ کسان کو کیسے بچایا جا سکے گا۔ چاول کسانوں کیلئے آئندہ رحمت کیسے بنے گا؟ پاسکو کا فرض کیا ہے اور زراعت کے علاوہ جنگلات‘ معدنیات‘ پولٹری اور ڈیری فارمز کو مناپلی‘ کرپشن اور قبضہ گروپوں سے کیسے بچانا ہے۔ اتنی بڑی عمارت میں محض باراتی اور ”ولیماتی“ انداز کے فنگشن سیمینار کے نام پر کرا دینا کافی نہیں۔ ان وزیروں‘ مشیروں اور افسران کی تربیت سازی ضروری ہے.... نہایت ضروری!!!