پیر ‘ 8 صفرالمظفر 1436ھ‘ یکم دسمبر 2014ئ
شاہ محمود قریشی کو چھوٹے بھائی مخدوم مرید حسین قریشی نے گدی سے ہٹا دیا۔ مرید حسین نے شاہ محمود پر دینی مسند کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا جو سخت الزام عائد کیا ہے، شاہ محمود قریشی نے اس کے جواب میں اسے درگاہ اور سروری جماعت کے مریدین پر وار قرار دیا ہے۔ یوں حقیقت میں اب یہ مسند نشینی کی جنگ سیاسی معرکے میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ بقول شاعر....
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
علما و مشائخ کا وقار ہمارے معاشرے میں اسی لئے مجروح ہوا ہے کہ ان کے خانوادے وہ معیار اور دینی و علمی وجاہت برقرار نہیں رکھ پائے جو ان کے بزرگوں کا خاصہ تھا۔ دنیاوی عہدوں اور مال زر کے لالچ میں سب نہیں مگر اکثر نے انگریزوں کی چاکری کی۔ خادم بن کر ان کی خدمت کی تاکہ مخدوم کا سرکاری اعزاز پا سکیں۔ غریبوں پر مال خرچ کرنے کی بجائے ان سے مال بٹورنے لگے۔ غریبوں کی جیب خالی کرکے اپنے بنک اکاﺅنٹ بھرنے لگے۔ آج مرید حسین نے بھی مخدوم شاہ محمود کی جانب سے مریدوں کی جیب اور دربار کے خزانے سے لاکھوں روپے کا نذرانہ تحریک انصاف کے دھرنے اور جلسوں پر اڑانے پر ہی اپنا فیصلہ سنایا۔ مخدوموں کے اہل خانہ اور وہ خود قیمتی محلات اور اعلی درجے کی زندگی بسر کرتے ہیں جو صوفیا اور مشائخ کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ خود ان کی زندگیاں مغربی تہذیب کا عمدہ نمونہ ہیں اور وہ عوام کو سادگی اور اسلام کا درس دیتے ہیں۔ یہ سب وہ کس منہ سے کرتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ مخدوموں کی اس جنگ کا خادموں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ مگر چلیں ایک فائدہ انہیں ضرور ہو گا وہ اس بنا پر کچھ عرصہ چندہ یا نذرانہ دینے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ بعد میں جو سر سلامت رہے گا جس کے سر دستار سجے گی وہ نذرانے بٹورنے کے لئے مسند سنبھالے گا۔ دنیا کے محکوموں اور مظلوموں کے لئے برابری اور مساوات کا درس دینے والے یہ اعلی تعلیم یافتہ مخدوم کتنی چالاکی سے اپنے کو آقا اور غریبوں کو غلام بناتے ہیں اس کا اندازہ آج کے باشعور لوگ باآسانی کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف جس نئے پاکستان کی بات کرتی ہے اس میں بھی یہ خادم اور مخدوم کا فرق اگر برقرار رہنا ہے تو پھر کون سا نیا پاکستان بنے گا۔ شاہ محمود قریشی نے تو بھائی کے ہاتھوں باندھی گئی دستار واپس لینے کے اعلان کے ساتھ ہی اس گدی کا وارث زین قریشی کو قرار دے کر اپنے سلطان ابن سلطان والے رویئے کا برملا اظہار بھی کر دیا ہے۔
٭....٭....٭....٭
غیر ملکی افواج کے انخلا سے افغانستان میں بدامنی کم ہو گی۔ گلبدین حکمت یار۔ اس کے بعد باہمی جدال و قتال کا جو نان سٹاپ مقابلہ شروع ہو گا۔ اسے کوئی بھی بدامنی نہیں کہہ سکے گا۔ کیونکہ ہر جماعت جو اس کارخیر میں شریک ہو گی وہ دوسرے مخالف کو غدار بے ایمان کفار کے ایجنٹ اور کافر قرار دے کر اس میدان میں اتری ہو گی۔ یوں پورے ملک میں وار لارڈز اپنے اپنے مفادات کی خاطر تخت کابل کا دھڑن تختہ کرنے اور اسے حاصل کرنے کے لئے جدید غیر ملکی اسلحہ کے بل بوتے پر بدامنی کی بجائے خانہ جنگی میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ افغانستان میں ایسی حالت کو برا سمجھا نہیں جاتا۔ کیونکہ یہ لوگ اسے لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ تصور کرتے ہیں۔ ابھی تک تو غیر ملکی افواج نے ان وار لارڈز کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ کچھ کو حکومت میں حصہ دے کر قابو کیا کچھ کو مالی امداد دے کر رام کیا ہے۔ طالبان کے ساتھ جو اپنے آپ کو تخت کابل کا حقیقی وارث سمجھتے ہیں۔ جنگی حالت نافذ ہے۔ افغانستان کی سیاسی قوتیں الیکشن میں حصہ لے کر بمشکل اس تخت کو حاصل کرنے کے بعد سنبھال پاتی ہیں۔ پورا معاشرہ ”اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ“ والی کیفیت کا شکار ہے۔ اگر یہ آہنی دیوار درمیان میں نہ ہوتی تو افغانستان کا منظر نامہ خاصہ مختلف نظر آتا۔ کبھی کبھی بم دھماکہ اور خودکش حملوں کی نوبت ہی نہ آتی۔ براہ راست گولہ باری سے ہی کابل، قندھار، ہرات، بدخشاں اور جلال آباد کی فضا گونج رہی ہوتی۔ مرنے والے اور مارنے والے دونوں نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے ایک دوسرے کا قلع قمع کرنے میں مصروف نظر آتے۔ اگر ہمارے افغان بھائی عقل اور تحمل سے کام لیں۔ دین رحمت کے پیروکار ہونے کے ناطے مل جل کر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور اس کے بعد امن و امان کی حالت بہتر بنانے کے لئے ملک و قوم کی بہتری اور فلاح کے لئے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کر لیں تو افغانستان میں بھی امن کی فضا بحال ہو سکتی ہے
٭....٭....٭....٭
پاکستان کا متحدہ عرب امارات سے پولٹری برآمدات پر پابندی اٹھانے کا مطالبہ۔ مشتری ہوشیار باش، برائلر کی قیمت میں اضافہ کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ شاہ پرست وزیر تجارت کا ارشاد ہے کہ پاکستان پولٹری کی پیداوار میں خودکفیل ہے اس لئے اسے برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ شاید اس خودکفالت کی وجہ سے مرغی آئے روز مہنگی ہو رہی ہے۔ کیا ایسے وزیروں میں ضمیر نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی۔ انہیں عوام کی حالت نظر نہیں آتی ان کا عوام سے رشتہ صرف یہی رہ گیا ہے کہ چند سال بعد ووٹ کی بھیک مانگنے غریب عوام کے دروازوں پر آتے ہیں اور خیرات ملنے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں چند برس قبل تک برائلر مرغی کا گوشت 70 روپے کلو عام دستیاب تھا اب جب سے حکمران تجارت کو بھی سیاست سمجھنے لگے ہیں اسی گوشت کی قیمت 240 روپے سے بھی اوپر جا پہنچی ہے۔ اور غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے۔ اب وہ بے چارے تو ”یہ منہ اور مسور کی دال“ والے محاورے کی جگہ ”یہ منہ اور برائلر مرغی“ والا جدید محاورہ ایجاد کرنے پر مجبور ہیں۔ حکمرانوں کے تجارتی شوق کی وجہ سے جس طرح اشیائے خوردونوش عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں اس کا اثر دھرنوں کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ اب بھی یہی مرغی باہر بھیج کر غیر ملکی بنک اکاﺅنٹس میں اضافہ کا خواب بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ پہلے کون سی چیز سستی ہے کہ عوام حکمرانوں کو دعائیں دیں۔ اب تو دستر خوان پر بھی کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد گراں فروش تاجروں اور دکانداروں کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے لئے بھی بددعائیں نکلتی ہیں۔ سبزیاں اور دالیں بھی غریبوں کو دستیاب نہیں۔ اس بات کا احساس طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہٹے کٹے وزیروں کو کہاں ہو سکتا ہے۔ جنہیں سبزیوں اور دالوں کے نام تک نہیں آتے۔ انہیں اشیا کی قیمت کی کیا خبر ہو گی۔