وزیراعظم نواز شریف کے پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ دیگر اشیاءکے نرخوں میں کمی کے بھی دل خوش کن ا علانات
یہ دھرنا سیاست کا توڑ ہے یا عوام کو حقیقی ریلیف دینے کی کوشش؟
وزیراعظم میاں نواز شریف نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکم دسمبر سے پٹرول 84 روپے 54 پیسے اور ہائی سپیڈ ڈیزل 94 روپے 8 پیسے فی لٹر ملے گا، امید ہے دھرنے والے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر اعتراض نہیں کریں گے۔ گزشتہ روز حویلیاں صوبہ خیبر پی کے میں موٹر وے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے وزراءاعلیٰ کو ہدایت کی کہ وہ اب اپنے اپنے صوبے میں ٹرانسپورٹ کرایوں میں بھی کمی کرائیں، اب مہنگائی کی کمر ٹوٹ جانی چاہئے۔ انہوں نے مٹی کے تیل کے نرخوں میں چار روپے 34 پیسے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخوں میں 7 روپے 12 پیسے فی لٹر کمی کا اعلان کیا جبکہ پٹرول کے نرخوں میں مزید 9 روپے 60 پیسے کمی کی گئی ہے۔ انہوں نے ازراہِ تفنن کہا کہ کہیں دھرنے والے اب قیمتیں کم ہونے کے خلاف بھی نہ دھرنا دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ٹیوب ویل اور ٹریکٹر بھی سستے ملیں گے جس کے بعد اناج کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی جبکہ اب کارخانے بھی سستے چلیں گے اور اب آلو، پیاز، ٹماٹر، آٹے کی قیمتیں بھی کم ہوں گی جس سے عوام خوش ہوں گے۔ انہوں نے ہزارہ موٹر وے کو خوشحالی کا پیغام قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے نئے خیبر پی کے کی بنیاد رکھ دی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کا ہزارہ موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر خیبر پی کے میں ایک بڑے پبلک جلسے میں خطاب کرنا یقیناً ان کے لئے خوشی اور اطمینان کا باعث ہو گا کہ ان کی حکومت کے خلاف گذشتہ ساڑھے تین ماہ سے جاری دھرنوں اور یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے عمران خان کے جلسوں میں ان پر اور ان کی حکومت پر ہر قسم کا گند اچھالنے کے باوجود عوام نے پی ٹی آئی کے زیر کنٹرول صوبہ میں بھی کثیر تعداد میں شرکت کر کے انہیں حاصل ہونے والے مینڈیٹ پر مہر تصدیق ثبت کی جو دھرنا سیاست والوں کے لئے لمحہ¿ فکریہ ہے۔ یقیناً انہوں نے عمران خان کے 30 نومبر کے جلسہ کی روح نکالنے کے مقصد کے تحت ہی حویلیاں کے جلسہ عام میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا اعلان کرنا ضروری سمجھا ہو گا تاکہ اس صوبے کے عوام کے وفاقی حکومت کے مخالف جذبات ٹھنڈے کئے جا سکیں۔ بے شک حکومت مخالف دھرنا سیاست نے ہی وزیراعظم کو اپنے مخالفین کے خلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے اقدامات اٹھانے کا راستہ دکھایا ہے اور ایک پبلک جلسے میں ان کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں نمایاں کمی کرنے کے اعلان سے لازمی طور پر انہیں سیاسی فائدہ بھی ہو گا مگر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا خود اعلان کرنا وزیراعظم کے منصب سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔ گزشتہ روز پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے ہی وزیراعظم نے حکومتی فیصلے کو افشا کر دیا جس سے فوری طور پر پٹرول پمپوں پر پٹرول اور ڈیزل کی سیل میں نمایاں کمی ہونے سے قومی خزانے کو جھٹکا لگا جبکہ عوام کو تو ابھی تک پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں سابقہ کمی کے ثمرات بھی حقیقی معنوں میں نہیں مل سکے۔ اب مزید کمی سے متعلق وزیراعظم کے اعلان کی روشنی میں بھی دیگر اشیاءکے نرخوں میں کوئی خاص فرق نہ پڑا جیسا کہ ناجائز منافع خور تاجروں، صنعتکاروں اور دکانداروں کا وطیرہ ہوتا ہے تو یہ دل خوش کن اعلان عوام کی مایوسی اور اضطراب کی صورت میں ان کے گلے بھی پڑ سکتا ہے۔
اصولی طور پر تو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا تعین اس کے عالمی مارکیٹ کے نرخوں کے حساب سے ازخود ہو جانا چاہئے جس کے لئے اوگرا کی شکل میں مجاز فورم بھی موجود ہے مگر اس فورم کے حکمرانوں کی خواہشات کے تابع ہونے کے باعث آج تک عوام کو عالمی مارکیٹ کے نرخوں کے حساب سے پٹرولیم مصنوعات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ عالمی مارکیٹ میں چار پانچ ماہ قبل پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا عمل شروع ہوا تھا جب تیل 120 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا تھا جبکہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بتدریج کم ہوتے ہوتے اب عالمی مارکیٹ میں 66 ڈالر فی بیرل کی کم ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں جس سے پٹرولیم کی عالمی مارکیٹ سے منسلک ممالک کے عوام شروع دن سے ہی بتدریج فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر ہمارے ملک کے عوام کو پہلے دو ماہ تک پٹرولیم نرخوں کی کمی کا سرے سے فائدہ ہی نہ پہنچنے دیا گیا اور اب گزشتہ ماہ سے جو کمی کی جا رہی ہے وہ عالمی مارکیٹ کے نرخوں کے حساب سے مایوس کن ہے، اصولی طور پر یہ کمی 40 سے 45 فیصد ہونی چاہئے تھی جو اب دسمبر سے 20 فیصد کی شرح پر آئے گی۔ اس طرح حکومت عالمی نرخوں کے حساب سے اب بھی پٹرولیم مصنوعات پر اس کے مجموعی نرخوں میں آدھے سے زیادہ کا منافع حاصل کر رہی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اس پر عائد کی گئی لیوی اور دوسرے ٹیکسز الگ ہیں۔ اگر حکومت عالمی نرخوں میں کمی کا عوام کو حقیقی معنوں میں فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو آج دستیاب ہونے والا 83 روپے لٹر والا پٹرول عوام کو 50 روپے فی لٹر تک فراہم کیا جا سکتا ہے مگر وزیراعظم نواز شریف نرخوں میں اس کمی پر بھی سیاست کرتے ہوئے اس کا کریڈٹ حکومت کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں جبکہ عمران خان بھی اس کمی کا یہ کہہ کر کریڈٹ لے رہے ہیں کہ ان کے تسلسل سے جاری دھرنے کے باعث حکومت پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی پر مجبور ہوئی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ اس دھرنے کا دباﺅ نہ ہوتا تو حکومتی صفوں میں موجود منافع خور طبقات پٹرولیم نرخوں میں عالمی سطح پر کمی کا کبھی عوام کو فائدہ نہ پہنچنے دیتے اور اس کمی کی شاید ہی نوبت آ پاتی۔
اگرچہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اب دیگر اشیاءکے نرخوں میں بھی کمی ہو گی جس کے لئے انہوں نے وزراءاعلیٰ کو ہدایات بھی جاری کی ہیں مگر گذشتہ ماہ ہونے والی کمی کا عوام کو کتنا فائدہ پہنچا اس کا جائزہ لیتے ہوئے وزیراعظم کے گذشتہ روز کے اعلانات دیوانے کی بڑ ہی نظر آتے ہیں اور یہ محض عمران خان کے 30 نومبر کے جلسے کا ٹمپو توڑنے کی حکمت عملی تھی۔ اگر پی ٹی آئی کے اس جلسے کے عمران خان کی سیاست پر خوشگوار اثرات مرتب نہ ہو سکے تو اپنے مفادات کے لئے منتخب ایوانوں میں ایکا کرکے بیٹھے منافع خور طبقات بپھرے شیر ہو جائیں گے اور وہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا وزیراعظم کے اعلان کے باوجود عوام کو حقیقی معنوں میں فائدہ نہیں پہنچنے دیں گے۔ اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے وزیراعظم نواز شریف پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں عالمی مارکیٹ میں ہونے والی کمی کا حقیقی معنوں میں عوام کو فائدہ پہنچانے کے عملی اقدامات اٹھائیں اور تیل سے چلنے والے تھرمل پاور پلانٹس کو بھی بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی پر مجبور کریں، اسی طرح سٹیٹ مشینری کو متحرک کر کے اب تیل سے منسلک دیگر تمام اشیاءکے نرخوں میں بھی حقیقی کمی کی جائے، ٹرانسپورٹ کے کرائے اونٹ کے منہ میں زیرے والے نہیں بلکہ تیل کے نرخوں میں کمی کے تناسب سے ہی کم کرائے جائیں۔ اگر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کے اثرات مہنگائی میں مجموعی 20 فیصد تک کمی تک پر بھی منتج ہوتے ہیں تو اس کا حکومت کو ازخود ہی کریڈٹ مل جائے گا لیکن وزیراعظم کے اعلان کے باوجود مہنگائی کی مجموعی شرح میں کوئی کمی نہ ہوئی تو یہ کریڈٹ حکمرانوں کے لئے ڈس کریڈٹ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔