سوات میں ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی، لوگ نفسیاتی مریض بننے لگے، بی بی سی
لندن (بی بی سی ڈاٹ کام) محمد ذہین خان وادی سوات کے تحصیل کبل کے علاقے ڈھیرئی میں طالبان مخالف امن کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ سوات میں امن لشکروں پر حالیہ حملوں میں اضافے کی وجہ سے ذہین خان جیسے لوگوں کےلئے گھر سے باہر قدم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ وہ آج کل زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں جبکہ کچھ عرصہ سے انہوں نے اپنی سرگرمیاں بھی اپنے حجرے تک ہی محدود کردی ہےں۔ محمد ذہین خان نے بی بی سی کو بتایا 2009ءکے آپریشن کے دوران ڈھرئی گاو¿ں کے40 کے قریب شدت پسند مارے گئے اور ان کے مکانات کو بھی مسمار کیا گیا۔ طالبان ان ہلاکتوں اور مکانات کے تباہ ہونے کےلئے امن کمیٹیوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ واضح رہے سوات میں گذشتہ چند ماہ سے طالبان مخالف امن کمیٹیوں کے رہنماو¿ں پر جاری شدت پسندوں کے حملوں کے باعث اب تک 18 سربراہان یا ممبران امن کمیٹی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان واقعات سے وادی میں ایک مرتبہ پھر سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شاید علاقے میں طالبان اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق سوات میں زیادہ تر طالبان مخالف امن کمیٹیاں تحصیل کبل کے علاقے میں قائم ہےں۔ یہ تحصیل پہلے طالبان کے گڑھ کے طور پر مشہور تھی جبکہ بیشتر حملے بھی اسی تحصیل یا مینگورہ کے اردگرد واقع علاقوں میں ہو چکے ہیں۔ ان واقعات کے بعد مینگورہ اور آس پاس کے علاقوں میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دئیے گئے ہیں جہاں بازاروں اور گلیوں میں دن رات فوج کے اہلکارگشت کرتے نظر آتے ہیں۔ امن کمیٹیوں کے بعض رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور پولیس نے کچھ عرصہ سے مجموعی طور پر سکیورٹی میں نرمی کر دی تھی اور حکومت اور امن کمیٹیوں کے درمیان رابطوں میں بھی کمی ہوئی تھی جس سے قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ مقامی صحافی غلام فاروق المعروف سپین دادا کا کہنا ہے کہ وادی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی وجہ سے بیشتر بااثر افراد علاقہ چھوڑ کر دیگر شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ان حملوں کے باعث علاقے میں خوف کا یہ عالم ہے کہ لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ ان کے مطابق ’ دوائیاں فروخت کرنے والے دکانوں پر جائے تو وہاں نیند کی گولیاں نہیں ملتی ، دکاندار کہتے کہ سٹاک ختم ہو چکا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علاقے میں کس حد تک کشیدگی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔
سوات ٹارگٹ کلنگ