• news

آپس کی چھینا جھپٹی میں کہیں ملک کونقصان نہ پہنچا بیٹھیں

عمران خان کی سی پلان کے تحت ملک بندکرنے اور حکومت نہ چلنے دینے کی دھمکی اور حکومت کا عاجلانہ ردعمل

اسلام آباد میں 30 نومبر کے جلسے سے خطاب کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کیخلاف پلان سی کے تحت 16دسمبر کو پورا پاکستان بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم 4دسمبر کو لاہور، 8دسمبر کو فیصل آباد اور 12دسمبر کوکراچی بند کردینگے، اسکے بعد نوازشریف کیلئے حکومت چلانا مشکل ہو جائیگا، ہمارے پاس جمود کو توڑنے کیلئے حکومت کا جینا مشکل کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا، اگر حکومت نے 16دسمبر کے بعد بھی ہمارے مطالبات ماننے کیلئے کوئی اقدام نہ اٹھایا تو پھر ہم پلان ڈی پیش کرینگے، ہماری جنگ اب شروع ہوئی ہے اور اب یہ نہیں رکے گی اور پلان ڈی کے تحت جو کچھ کرینگے وہ حکومت برداشت نہیں کرسکے گی، تحریک انصاف اپنا دھرنا جاری رکھے گی، میاں صاحب کو دکھائیں گے کہ تحریک انصاف کیسے پورا پاکستان بند کرتی ہے، میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ 2015ءنئے پاکستان کا سال ہوگا، نواز شریف اور زرداری ملک کے بڑے چور اور ڈاکو ہیں، قوم کے اربوں روپے چوری کرنے پر ڈاکو نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟
عمران خان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ شروع میں انہوں نے صرف چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کی راہ میں کچھ قانونی موشگافیاں رکاوٹ بنیں۔ وزراءاور حکومتی حامیوں کا مو¿قف تھا کہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت انتخابات کے حوالے سے ہر مشکل الیکشن ٹربیونل حل کرینگے۔آئین میں انہیں انتخابی عذرداریاں نمٹانے کیلئے چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ مگر آج بھی کئی عذرداریوں کے فیصلے ہونا باقی ہیں۔ تحریک انصاف کے بقول اس نے انصاف کیلئے ہر متعلقہ فورم پر دستک دی‘ لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی تو آزادی مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا۔ اب عمران خان کا مطالبہ چار حلقوں کی گنتی سے بڑھ کر پورے الیکشن کی تحقیقات پر محیط ہو گیا اور انکے بقول وزیراعظم سے استعفے کی ڈیمانڈ اس لئے کی گئی کہ وہ آزادانہ اور شفاف تحقیقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ عمران خان نے لاہور سے آزادی مارچ کی روانگی سے دو تین ہفتے قبل تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ حکمران پارٹی نے اس مطالبے کو استہزا میں اڑا دیا۔ جب لاہور سے آزادی اور لانگ مارچ کی روانگی کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو وزیراعظم نوازشریف نے 12 اگست کو قوم سے خطاب کے دوران جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی تجویز پیش کی جسے تحریک انصاف نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ نوازشریف کے استعفے تک عدالتی کمیشن قبول نہیں۔ جن وزراءکو ہر مرض کا علاج الیکشن ٹربیونل میں نظر آتا تھا‘ وہ اپنے وزیراعظم کی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی پیشکش پر اسکے حق میں دور کی کوڑی لانے لگے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے اپنے آج کے بیان کی کل نفی کرکے خود کو یوٹرن کا ماہر ظاہر اور ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
وزیراعظم نوازشریف کی طرف جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ تو درست تھا لیکن یہ بڑی تاخیر سے اس وقت کیا گیا جب حکومت نے اپنا گھیرا تنگ ہوتا محسوس کیا۔ اسلام آباد میں دھرنے براجمان ہوئے تو حکومتی پارٹی کی صفوں میں بے چینی نظر آتی تھی۔ اس موقع پر آرمی چیف کی طرف سے بیان سامنے آیا کہ حکومت اس مسئلے کا فوری سیاسی حل نکالے۔ اگلے ایک دو روز میں کورکمانڈرز کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیاکہ فوج قوم کی خواہشات کا احترام کریگی۔ ان حالات میں وزیراعظم اور انکی کابینہ کے ارکان کے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ وزراءعرق آلود پیشانی اور جھکی گردن کے ساتھ عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ مذاکرات کیلئے انکے کنٹینروں پر حاضری دیتے تھے۔ پھر جیسے ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام جماعتیں متحدہو کر حکومتی پشت پر آگئیں تو وزراءکے لہجے میں پھر رعونت درآئی اور مذاکرات اگر جاری رکھے تو ڈھونگ ثابت ہوئے۔ طاہرالقادری نے دھرنا ختم کیا تو عمران خان کے دھرنے کو مزید غیرسنجیدگی سے لیا گیا۔ عمران خان نے گو ایک اور یوٹرن لیا‘ پہلے وہ نوازشریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی مخالفت کررہے تھے‘ چند ہفتے قبل انہوں نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ واپس لے لیا‘ جوڈیشل کمیشن میں انہوں نے فوجی ایجنسیوں کے افراد کو شامل کرنے کی تجویز دی‘ اسکی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی تاہم حکومت مذاکرات کے ذریعے اس تجویز میں نرمی پیدا کرانے کی کوشش کر سکتی تھی۔ مگر حکومت نے ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر آنے سے گریز کیا۔ اس دوران عمران خان نے 30 نومبر کے جلسے کا ہوّا کھڑا کر دیا جس سے 16 دسمبر کو پورا پاکستان بند کرنے کا اعلان برآمد ہوا۔ اس سے قبل چار دسمبر کو لاہور‘ 8 دسمبر کو فیصل آباد اور 12 دسمبر کو کراچی میں احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ 4 دسمبر کے حوالے سے جماعت الدعوة کا ردعمل سامنے آنے پر تحریک انصاف نے لاہور کو بند کرنے کا پروگرام 15 دسمبر پر ڈال دیا ہے۔ لگتا ہے عمران خان اور انکی مشاورتی ٹیم تاریخی واقعات اور موجودہ حالات کو نظرانداز کرکے فیصلے کرتی ہے۔کیونکہ 16 دسمبر کو پورا ملک بند کرنے کا فیصلہ بھی یہ سوچے بغیر ہی کرلیا گیا ہے کہ 16 دسمبر کوسقوط ڈھاکہ کے صدمے میںپوری قوم یوم سیاہ مناتی ہے‘ اس روز پاکستان کا مشرقی بازو کٹ گیا تھا‘ عمران خان اور انکی پارٹی کو احتجاج کا پورا حق حاصل ہے‘ ان میں کم از کم یہ سوجھ بوجھ ہونی چاہیے کہ اپنا تاریخ ساز دن انہوں نے پاکستان کے یوم سیاہ کی تاریخ پر مقرر کیا ہے۔ آخری اطلاعات تک تحریک انصاف نے 16 دسمبر کے بجائے 18 کو بھرپور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
عمران خان کے پاکستان کو بند کرنے کے اعلان پر وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ کنٹینر گروپ کا پلان سی اور ڈی اپنی موت مر جائیگا۔ جمہوریت دشمن ایجنڈا رکھنے والے بے نقاب ہونگے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عمران ضد کی سیاست چھوڑ کر ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کریں۔ ردعمل میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں وزراءاور حکومتی ترجمانوں میں ایک دوڑ سی لگ جاتی ہے۔ جوش خوشامد میں ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس کے مضمرات کا ان کو ادراک نہیں ہوتا۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ عمران ملک دشمنوں کے آلہ کار ہیں‘ ان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ملک دشمن کے گریبان میں ہاتھ ڈالیں گے۔ دیگر نے بھی حسب توفیق اپنا اپنا ابال نکالا ہے۔ عمران کے دھرنوں سے حکومت گر سکتی ہے یا نہیں‘ اس بحث میں پڑے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دھرنے اور عمران خان کے جلسوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لیڈروں کی کرپشن کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں۔ ان کا حکومت کی طرف سے کوئی مدلل جواب آتا ہے نہ عمران کو ہتک عزت کا نوٹس دیا گیا جس کے باعث لوگ عمران کے الزامات کو درست سمجھ سکتے ہیں۔ شاید یہی سمجھ کر لوگ عمران خان کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ دھرنے اور جلسوں کے باعث عام آدمی کی زندگی میں انقلاب تو نہیں آیا البتہ سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ حکومتی حلقوں کے بقول معیشت پر زد پڑ رہی ہے۔ چین سمیت کئی ممالک کے سربراہوں نے اپنے دورے مو¿خر یا منسوخ کر دیئے۔ دھرنے کے اردگرد کے مکینوں کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ البتہ عوام کو ان دھرنوں سے فوری ریلیف تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی سے ضرور مل رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی عمران کی سیاست کا توڑ نہیں۔ فریقین کی طرف سے تیزوتند بیانات اور ایک دوسرے کی کردار کشی سے آپس میں نفرتیں بڑھیں گی۔ معاملہ ابھی پوائنٹ آف نوریٹرن پر نہیں پہنچا۔
چند روز قبل ہی 30 نومبر کے جلسے کے حوالے سے فریقین نے مذاکرات کے ذریعے چند شرائط پر اتفاق کیا۔ مذاکرات کا سلسلہ آگے کیوں نہیں چل سکتا؟ وہ وزراءہوش کے ناخن لیں جو عمران کو ملک دشمنوں کا آلہ کار کہہ کر انکے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کررہے ہیں۔ ایسا کرکے یہ پاکستان کی خدمت نہیں کر رہے ‘ یہ ملک کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے کے مترادف ہے۔ عمران خان بھی ملک کے امن اور اقتصادیات پر رحم کریں۔ ملک بند کرنے کی دھمکیاں اور 18 دسمبر کے بعد کسی انہونی کا ڈراوا دے رہے ہیں۔ ملک میں تشدد اور تخریب کاری کی سیاست کس کا ایجنڈا ہے۔ آپس کی چھینا جھپٹی میں ملک کو نقصان نہ پہنچائیں۔

ای پیپر-دی نیشن