• news

منگل ‘ 9 صفرالمظفر 1436ھ‘ 2 دسمبر 2014ئ

مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے، الطاف حسین نے نسیم ولی کو ماں قرار دیدیا! 

مبارک ہو اہلیان کراچی کو کہ اب جلد ہی یہ ماں اور بیٹا اس شہر قائد کو امن کا گہوارہ بنا دیں گے۔ بقول شخصے ”یہ اتحاد مبارک ہے مومنوں کیلئے“ اس وقت کراچی میں پٹھان اور مہاجر قوتیں عرصہ دراز سے شہر کے مختلف علاقوں میں اپنا اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کے لئے اکثر و بیشتر چاند ماری مشقیں کرتی رہتی ہیں، کبھی لُکن چھپائی کا کھیل اور کبھی باندر کِلہ کھیلتے ہیں جس میں دوستانہ ہاتھا پائی کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ اب ڈیڑھ کروڑ کے شہر میں اگر دوستانہ گرمجوشی کے مظاہرے میں چند ایک پھڑک بھی جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔
بدقسمتی سے کراچی انٹرنیشنل شہر ہے جہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ جن میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی آ کر غائب ہو جاتے ہیں، اب ہمارے دشمن بھلا کب ہمیں آرام سے دیکھ سکتے ہیں ان کے ایجنٹ بھی یہاں آ کر کبھی قومیت کے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر، کبھی فرقے کے نام پر کراچی کے باسیوں کو آپس میں لڑانے کے لئے جی کھول کر رقم اور اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ تاکہ پیسے کی چکا چوند اور گولیوں کی گھن گرج میں کمی نہ آئے اور موت کا رقص جاری رہے۔ اس پیسے اور اسلحہ کی فراوانی نے اس روشنیوں کے شہر کو تاریکی کے گڑھے میں تبدیل کر دیا ہے، آئے روز یہاں بم دھماکے، فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں کے نت نئے ڈرامے سٹیج ہوتے ہیں۔ جن میں خوب رقص ابلیس ہوتا ہے۔ اب اگر مہاجر اور پٹھان مل کر بھائیوں کی طرح چلنے کی ماں کی خواہش پوری کر دیں تو اس شہر کی رونقیں بحال ہو سکتی ہیں مگر اس خوشی کے لمحات میں ہمیں ان سندھی اور پنجابی بھائیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے جو سوتیلے نہیں ہمارے سگے بھائی ہی ہیں۔ اسی شہر کے باسی ہیں۔ ان کو بھی ساتھ ملا کر بھائی چارے اور امن کی بنیاد رکھنی چاہئے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ہم جنگ ہار چکے ہیں، ریٹائرڈ امریکی جنرل کا اعتراف!
آپ کو یہ خوش فہمی کیسے ہوئی تھی کہ آپ یہ جنگ جیت بھی سکتے ہیں۔ افغانستان جنگوں کی تاریخ میں موت کی دلدل ثابت ہوا ہے۔ یہاں آنے والے فاتحین ہوں یا حملہ آور بے شک قابض ہوئے، داخل ہوئے اسے باجگذار بنایا مگر یہاں مستقل قبضہ نہ جما سکے۔ یہ تو امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ وہ افغانستان سے ہزاروں میل دور ہے اور پھر افغانستان میں لڑنے والی تنظیمیں باہمی جدال و قتال کی بھی بہت شوقین ہیں اور ایک دوسرے سے بھی نبرد آزما رہتی ہیں، دشمن کے ساتھ ساتھ اپنوں کو شکار کرنا بھی ان کی کمزوری ہے۔ بات بات پر لڑنا قتل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اس مارا ماری کی باقی دنیا عادی نہیں ہے۔
اب روس کو ہی دیکھ لیں کس طمطراق سے افغانستان میں داخل ہوا تھا یہ انداز امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو پسند نہیں آیا کیونکہ اس وقت سرد جنگ میں یہ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے پھر امریکہ اور مغرب نے مل کر مسلمانوں کی خاص کر پاکستان کی مدد سے افغانستان سے روس کو نہ صرف بھگایا بلکہ اسے تڑوا بھی دیا مگر اس کے ساتھ ساتھ خود ہی فتح کے نشے میں سرشار ہو کر اس دلدل میں اترنے کا فیصلہ کیا جو روس کے فیصلے کے طرح غلط ثابت ہوا ہے اور اب امریکی جنرل بھی اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ اب اس وقت یہ اعتراف تو ....
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
کے مصداق ہے کیونکہ اب بھی یہ سبق حاصل ہونے کے بعد امریکہ نجانے کیوں افغانستان سے یاری توڑنے میں تاخیر کر رہا ہے۔ اس بلا سے تو جتنا جلدی پیچھا چھڑایا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
حکومت اور تحریک انصاف میں جلد صلح کرا دیں گے: سراج الحق!
لگتا ہے سراج الحق کو آج کل صلح صفائی کا زیادہ سے خیال آ رہا ہے۔ جبھی تو وہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان پُل بننے کی کوشش کر رہے ہیں اس پُل کا قیام اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسلام آباد اور پشاور کے ایوانوں سے رابطہ اس وقت جماعت اسلامی کی مجبوری ہے کیونکہ اگر یہ جمہوری نظام ان دو متحارب جماعتوں کی باہمی عناد کی نذر ہو گیا اور تھرڈ امپائر انگلی کی بجائے چھڑی اُٹھائے اسلام آباد ٹی وی سٹیشن میں تقریر کرنے پہنچ گیا تو پھر جمہوریت کی تو ٹائیں ٹائیں فش ہو ہی جائے گی۔ مگر یہ جو جماعتیں مرکز اور صوبوں میں آئیں بائیں شائیں کرتی پھر رہی ہیں ان کا بھی کھیل ختم ہو جائے گا۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے سراج الحق نہایت عرق ریزی سے دونوں جماعتوں کو سمجھا رہے ہیں مگر ان موٹی عقل والوں کے دماغ میں یہ بات ہے کہ بیٹھ ہی نہیں رہی اور یہ آپس میں اس بُری طرح سر پھٹول میں مصروف ہیں کہ ان کے درمیان آنے والا بھی پسنے لگتا ہے۔ ابھی سراج الحق کو صلح کے میدان میں خاطر خواہ کامیابی ملی نہیں تھی کہ جے یو آئی اور تحریک انصاف میں بھی میدان گرم ہو گیا ہے۔ پرویز خٹک نے کچھ زیادہ ہی جے یو آئی کو ایزی لیا ہے ورنہ ایسی باتیں نہ کرتے جس سے جے یو آئی کا پارہ چڑھتا۔ اب کہاں مولانا فضل الرحمن کہاں پرویز خٹک، اگر کوئی جوڑ ہے تو بتائیں۔ عمران خان کچھ کہتے تو اور بات تھی کم از کم یہ پرویز خٹک دائیں بائیں دیکھ کر ہی بات کریں۔ اگر خیبر پی کے کے دینی مدارس کے لٹھ بردار طلبہ بھی باہر آ گئے تو پھر انہیں خٹک ڈانس کر کے تو بہلایا نہیں جا سکے گا ناں۔ پھر تو ان سے یہی پوچھا جا سکے گا کہ....
”حال کیسا ہے جناب کا“

ای پیپر-دی نیشن