ڈرا ہوا ڈار؟
آج کل عمران خان اور وزیر خزانہ اسحق ڈار صاحب کے درمیان دلچسپ نوک جھونک کا سلسلہ جاری ہے۔ عمران خان ہر جلسے میں ان کی اس کنفیشن کا ذکر کرتا ہے جس میں انہوں نے شریف برادران کے لئے پیسہ غیر قانونی طور پر باہر بھجوانے کا تحریری اعتراف کیا تھا۔ ڈار صاحب کا موقف یہ ہے کہ بندوقوں کے سائے تلے وہ بیان دیا نہیں لیا گیا تھا۔ وہ تشدد برداشت نہ کر سکے اور آنکھیں بند کر کے پہلے سے لکھی ہوئی تحریر پر دستخط کر دیئے۔ جواب آں غزل کے طور پر ڈار صاحب نے سیتاوائیٹ اور اس کی بیٹی کا ذکر کیا ہے جو خان کے ”کارنامے“ کے زمرے میں آتا ہے۔ دونوں بیانات میں اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ عمران الزام مزے لے لے کر لگاتا ہے اس کے جواب میں ڈار صاحب کے لب و لہجے میں جھنجھلاہٹ صاف دکھائی دیتی ہے۔
اس بحث میں الجھنے سے قبل ہمیں ایک بنیادی حقیقت نہیں بھولنی چاہیے۔ ڈار ایک عام آدمی ہے کوئی مہاتما یا نیلسن منڈیلا نہیں۔ جنہوں نے ایک مشن کی خاطر اپنا آرام و سکون تج دیا اور ساری زندگی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہ وہ مشہور چینی انقلابی شاعر بھی نہیں ہے جس نے عمر قید ملنے پر جیل سے چیانگ کائی شک کو خط لکھا تھا۔” ہو سکتا ہے میں تیس سال تک سورج کی کرن نہ دیکھ سکوں۔ کیا اس عرصے میں تمہارا فرسودہ اور دیمک خوردہ نظام بھی قائم رہہ سکے گا جس کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔“
بڑے بڑے پیشہ ور ملزم پولیس کی مار برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے کردہ و ناکردہ گناہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ ڈار تو شریف آدمی ہے جو بے شک ناز و نعم میں نہ پلا ہو لیکن آج کل عیش و عشرت کے مرغزار میں زندگی گزار رہا ہے۔ ان کے حالیہ بیان کو یکسر رد نہیں بھی کیا جا سکتا کیونکہ کوئی شخص از خود اتنا بڑا الزام نہیں لگا سکتا یا اتنے گہرے راز کا انکشاف نہیں کر سکتا جس میں وہ خود بھی شریک جرم ہوتا ہو۔ البتہ ہر ذہن میں چند تکلیف دہ سوالات اٹھ رہے ہیں جس کا جواب بہرحال انہیں دینا ہو گا۔ فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف کے خلاف آئین و قانون توڑنے کے جرم میں مقدمہ چل رہا ہے۔ منطقی طور پر اگر کوئی اور وردی والا قانون شکنی کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے ڈار سے بزور شمشیر بیان لکھوایا ہے تو ڈار کو اس کا نام لینے اور قانونی کارروائی کرنے سے کس نے روکا ہے؟ اگر فوج نے زبردستی بیان لکھوانا ہوتا تو میاں نواز شریف سے استعفٰے لکھوا لیتی۔ خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، پرویز رشید دیگر ان کافی عرصہ زیر حراست رہے ان سے بھی تو اقبالی بیان لکھوائے جا سکتے تھے۔ بادی النظر میں ان پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔ بالفرض ہوا ہے تو پھر انکی ہمت اور حوصلہ کی داد دینا پڑتی ہے۔ ڈار صاحب کو بھی ایسی روش اختیار کرنا چاہئیے تھی۔ جب ڈار نے اقبالی بیان دیا اس وقت میاں صاحب ایک معاہدے کے تحت جدہ جا چکے تھے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ حکمرانوں نے ایک ”ثابت جرم“ میں تو انہیں چھوڑ دیا اور ایک ایسے الزام میں دلچسپی لی جس کو عدالت میں لے جانے کے لئے میاں صاحب کی موجودگی ضروری تھی۔ پھر اس ضمن میں کوئی مقدمہ درج نہ ہوا۔ اس کاوش بے سود کا پرویز مشرف کو کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔ بالفرض مدعا وہ رقم واپس منگوانا ہوتا تو اس کیلئے حکومت برطانوی وزیر اعظم یا عدالتوں سے رجوع کرتی۔ اس سلسلے میں کسی قسم کا نوٹس نہیں کیا گیا۔
اقبالی بیان میں غالباً کسی مجید نامی شخص کا ذکر ہے جس کے کھاتے میں رقم پاکستان سے برطانیہ منتقل کی گئی۔ ڈار صاحب بڑی آسانی کے ساتھ اس کی Statement of Account منگوا کر اپنی بے گناہی ثابت کر سکتے تھے۔ کیا یہ شخص حاکمان وقت یا ڈار صاحب کی ذہنی احتراع تھا یا اس کا حقیقت میں وجود ہے جو اس حکایتی سردار کی طرح ہر کسی سے پوچھ رہا ہے۔ ”مجھے دھکا کس نے دیا تھا؟“
ان تمام واقعات سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ڈار صاحب نے غلط بیانی سے کام لیا ہے یا پھر ڈر پوک ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے ایسے شخص کو معاف کیسے کر دیا؟ صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اپنا تاج اس کے سر پر رکھ دیا ہے اور اسے وزیروں کا سرخیل بنا دیا ۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ وہ جنہوں نے انکی یاد میں آنسو بہائے وہ جو ان کی ناموس کی خاطر مرحلہ وار کرب سے گزرے وہ جنہوںنے دور ابتلا میں بھی وفا کے چراغ بجھنے نہ دیئے۔ انہیں تو ذہن سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا بھگا دیا گیا اور وہ جنہوں نے بے وفائی کی، کاسمیٹک نظر بندیاں کاٹیں آج دندنا رہے ہیں، جگمگا رہے ہیں، مسکرا رہے ہیں۔ شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ”بوئے گل، نالہ دل، دور چراغ، محفل میں آزادی کے بعد ان انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو شریک سفر نہ تھے اور تقسیم کے وقت اپنی حالت زار ان الفاظ میں بیان کی۔ ”ہم لوگ جنہوں نے آزادی کی راہ میں تمام عمر جیل میں کاٹی تھی۔ یوں منہ چھپا رہے تھے جس طرح ایک بیوہ بھائیوں کے ڈر سے اپنے آنسو چھپاتی ہے۔ آج کل سردار ذوالفقار کھوسہ، جاوید ہاشمی، غوث علی شاہ بھی اس قسم کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے ایک منتخب وزیر اعظم کو جلا وطن کر کے یقیناً زیادتی کی تھی اس کا تو کچھ بگڑا نہیں، نزلہ برعضو ضعیف گرنے کا عمل جاری ہے۔
دلوں کے بھید تو خالق کائنات جانتا ہے لیکن قوانین، شواہد اور کوائف سے کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ میاں صاحب جب معاہدہ کر کے بیرون ملک چلے گئے تو ان کے خاص آدمیوں کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔ دس سال کا عرصہ طویل ہوتا ہے اور جیل کا ہر دن مہینوں پر محیط لگتا ہے۔ ان کے لئے قید کاٹنا مشکل ہو گیا کچھ ایسے بھی تھے جنہیں اس بات کا قلق تھا کہ شریف برادران انہیں بیچ سمندر کے چھوڑ گئے ہیں۔ جب مایوسی اور غصہ یکجا ہو جائیں تو آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ویسے بھی ڈار صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے۔ جنکے متعلق غالب نے کہا تھا۔ دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا۔ ہو سکتا ہے ایک جاندار دَب±کا کام کر گیا ہو اور ڈار صاحب نے ہتھیار ڈالنے میں ہی طاقت سمجھی ہو!