حمزہ شہباز شریف کی ’’ سیاسی دہشت گردی‘‘
جب 10 دسمبر 2000ء کو جنرل (ر) پرویز مشرف نے شریف فیملی کو جبراً سعودی عرب جلا وطن کر دیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے صاحبزادوں حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو پاکستان میں اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے ’’یرغمال‘‘ بنا لیا اور ان کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دی اور نہ ہی کاروبار کرنے کی آزادی دی پرویز حکومت نے شریف خاندان کے تمام کارخانوں پر قبضہ کر لیا اس طرح جنرل (ر) پرویز مشرف نے شریف خاندان کے ’’یرغمال بنائے گئے دونوں بھائیوں کا عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے شریف خاندان کی ملکیت کے تمام کارخانوںکو اپنی تحویل میں لے کر عملی طور پر ’’پائی پائی‘‘ کا مقروض بنا دیا اس وقت پاکستان میں حمزہ شہباز نے جنر ل پر ویز مشرف کی انتقامی کارروائیوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے جابرانہ دور کی بھٹی نے حمزہ شہباز شریف کو کندن بنا دیا۔ جب بھی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو پورا شریف خاندان سیاسی مخالفین کا ٹارگٹ بن جاتا ہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بعد شریف خاندان کی جس شخصیت کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ میاں شہباز شریف کے سیاسی جانشین حمزہ شہباز شریف ہیں جو کبھی سکینڈلوں کی زد میں ہوتے ہیں اور کبھی انہیں ’’ڈیفیکٹو چیف منسٹر‘‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ میں پچھلے کئی ماہ سے حمزہ شہباز شریف کے بارے لگائے جانے والے الزامات کا جائزہ لے رہا ہوں۔ حمزہ شہباز پر الزامات عائد کرنے والوں کے پاس ثبوت تو کوئی نہ تھا لیکن الزامات کی بھرمار نے حمزہ شہباز کے اُجلے چہرے کو ’’دھندلا‘‘ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ حمزہ شہباز نے کبھی ان کی وضاحت کی اور نہ ہی ان پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا اس لئے حمزہ شہباز پنجاب کی ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر اُبھرے ہیں۔ جب سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے حمزہ شہباز شریف کو رابطہ کمیٹی کا سربراہ بنایا ہے سیاسی مخالفین کی حمزہ شہباز شریف پر ’’گولہ باری‘‘ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سابق فری میسن ہال جسے چوہدری پرویز الہیٰ کے دور میں دوسرے وزیر اعلیٰ آفس کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی اب حمزہ شہباز شریف کے زیر استعمال ہے، مسلم لیگی کارکنوں سے رابطے کا مرکز ہے جہاں حمزہ شہباز روزانہ بیٹھتے ہیں اور مسلم لیگی کارکنوں کی شکایات سُنتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ روزانہ کھلی کچہری لگاتے ہیں تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف مصروفیات کی وجہ سے جن مسلم لیگی ارکان اسمبلی اور کارکنوں سے ملاقاتیں نہیں کر سکتے حمزہ شہباز شریف اس خلا کو پُر کر رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین ان کی اس ’’سیاسی دہشت گردی‘‘ سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ حمزہ شہباز شریف ’’ناراض کارکنوں‘‘ کی شکایات کا ازالہ کر کے انہیں خوش و خرم واپس بھیجتے ہیں۔ پچھلے دنوں بدلے بدلے شہر لاہور جانا ہوا تو ’’ڈیفیکٹو چیف منسٹر‘‘ سے سابق فری میسن ہال میں ملاقات ہوئی، وہ اسی نشست پر براجمان تھے جہاں کبھی چوہدری پرویز الٰہی بیٹھ کر پنجاب میں حکمرانی کرتے تھے، جب میں سابق فری میسن ہال میں داخل ہوا تو مین ہال میں مسلم لیگی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد حمزہ شہباز سے ملاقات کی منتظر پائی، مجھے اس سے اندازہ ہوا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جنہوں نے اپنے آپ کو وزارتوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے وہ شہباز شریف کے مددگار کے طور پر کام کر رہے ہیں ملاقات کے آغاز میں ہی عمران خان کی سیاسی سرگرمیاں زیر بحث آ گئیں، مَیں نے ان کو ایک گیلپ سروے کی چونکا دینے والی رپورٹ سے آگاہ کیا تو انہوں پہلو بدلا ان کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور اس کی تفصیلات کے بارے میں اشتیاق بڑھ گیا۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ گیلپ اور پلڈاٹ کے اگست2014ء میں کئے جانے والے سروے کے بعد بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک ادارے کے سربراہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ستمبر 2014ء میں کئے گئے سروے کے مطابق عمران خان کی مقبولیت میں کوئی خاطر خوا ہ اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی میاں نواز شریف کی حکومت کی مقبولیت میں کوئی خاص کمی آئی ہے اگر وزیراعظم نواز شریف آج مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیں تو انتخابی نتائج 2013ء سے مختلف نہیں ہوں گے ممکن ہے بعض نشستوں پر کانٹے دار مقابلہ ہو لیکن عمران خان مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں میدان نہیں مار سکتے۔ انہوں نے سروے رپورٹ میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا میری موجودگی میں انہوں نے گوجرانوالہ کے ’’بے تاج بادشاہ‘‘غلام دستگیر خان سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے ان سے استدعا کی کہ’’ وہ گوجرانوالہ کے مسلم لیگیوں کو کنٹرول میں رکھیں اور انہیں عمران خان کو پُرامن جلسے کرنے کا موقع دیں۔‘‘ عمران خان دھرنے میں اپنے مقاصد پورے نہ ہونے کے باعث فرسٹیشن کا شکار ہیں اور وہ تصادم کے ذریعے حالات خراب کرنا چاہتے ہیں غلام دستگیر خان کا شمار دیرینہ مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے وہ اپنے قائد کے خلاف دشنام طرازی کو کس طرح برداشت کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے حمزہ شہباز کو عمران خان کا پُرامن طور پر جلسہ منعقد کرنے کی ضمانت دے دی وہ خود عملی سیاست سے ریٹائر ہو گئے ہیں ان کی جگہ ان کے سیاسی جانشین خرم دستگیر نے لے لی ہے جو وفاقی کابینہ کے انتہائی متحرک رکن ہیں۔
حمزہ شہباز نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود اس کی تنظیم کا کام تاحال مکمل نہیں ہوا، انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے پارٹی کے چیئرمین راجہ محمد ظفرالحق اور سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کو ٹاسک دیا ہے انشاء اللہ جلد مسلم لیگ (ن) کی تنظیم نو کا کام مکمل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں میٹرو بس کے پراجیکٹ کی تکمیل سے صوبائی دارالحکومت کا سفری کلچر تبدیل ہو گیا ہے راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پراجیکٹ دھرنے کی سیاست کے باعث تاخیر کا شکار ہوا ہے اس منصوبے نے ایک ماہ قبل مکمل ہونے پر 25 دسمبر 2014ء کو افتتاح ہونا تھا لیکن اب 25 جنوری 2015ء کو اس کا افتتاح ہو گا۔ دھرنے کی سیاست نے ملتان اور فیصل آباد کے میٹرو پراجیکٹس بھی تاخیر کا شکار کر دئیے ہیں۔ مَیں نے ان کی توجہ پنجاب میں ہسپتالوں کی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرائی تو انہوں نے میری اس تجویز سے اتفاق کیا کہ صوبائی وزیر صحت کو اپنے دفتر میں بیٹھنے کی بجائے ہسپتالوں کے اچانک دورکرنے چاہیں اس سے پنجاب بھر میں صحت سے متعلق 50 فیصد مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ مَیں نے انہیں ڈاکٹروں کے بغیر چلنے والے بنیادی مراکز صحت میں ادویات کے لئے فنڈز نہ ہونے کا رونا بھی رویا، انہوں نے اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ اس مسئلہ پر وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر صحت سے بات کریں گے۔ حمزہ شہباز شریف کی ’’سیاسی دہشت گردی‘‘ سے مسلم لیگ (ن) کے مخالفین میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے وہ پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسوں سے خطاب کر کے مسلم لیگ کے وجود کا احساس دلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے نوجوان کارکن ان کی قیادت مین کام کرنا چاہتے ہیں لیکن حمزہ شہباز کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ پر لمبی تان نہیں سو جانا چاہیے۔ مسلم لیگ کی حکومت کو عوام کو پولیس اور پٹواریوں کی چیرہ دستیوں، مظالم اور لوٹ مار سے نجات دلانے کے لئے انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانا ہوں گے، گڈگورنس سے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنا کر ہی ’’نعروں کی سیاست‘‘ کرنے والوں شکست دی جا سکتی ہے۔