سارک شارک نہ بننے پائے اور مشرقی بلاک
سارک کانفرنس گزر گئی اور صرف ایک واقعہ یاد رہ گیا۔ وہ نواز شریف اور نریندر مودی کا مصافحہ ہے۔ ہاتھ ملانے کے اعتبار سے کھٹمنڈو میں ہونے والی کانفرنس پہلے بھی مشہور ہوئی تھی۔ میرا خیال ہے کہ سارک کانفرنس کا اب معاملہ صرف اتنا رہ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی گونج پوری دنیا میں چلی جائے۔ پہلے صدر جنرل مشرف نے بھارتی وزیراعظم واجپائی سے اس کی نشست پر جا کے ہاتھ ملایا تھا کہ وہ بوکھلا گیا۔ وہ شاید ایسا چاہتا نہ تھا مگر مجبور ہو گیا۔ پاکستان کے حوالے سے بھارت کی مجبوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بھارتی ایک جابر ملک خطے میں بننا چاہتا ہے مگر ایک مجبور ملک بن کے رہ گیا ہے۔
اب پھر مصافحے کی کہانی چل نکلی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے خیال کے مطابق اسے کوئی عنوان دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس بار پاکستان مبارکباد کا مستحق ہے کہ وہ اپنے موقف پر ثابت قدمی سے ڈٹ گیا۔ پاکستان بھی مذاکرات اور ملاقات کے لئے مرا نہیں جا رہا۔ نواز شریف نے خوب کہا کہ مذاکرات بھارت نے پسند کئے تھے۔ اب وہی شروع کرے گا۔ پہلے بھی مذاکرات سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا کہ اب حل ہو جائے گا۔
لگتا ہے کہ اس سارک کانفرنس میں بھی صرف ایک واقعہ ہوا ہے۔ سٹیج پر ہی جب سب سربراہان حکومت اٹھ کھڑے ہوئے تو ایک دوسرے کے ساتھ رسمی ہیلو ہائے ہوئی۔ لفظ ہائے پر غور کریں
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
نواز شریف اپنی بے نیازی میں تھے۔ مودی نے ان کے پاس جا کے ہاتھ بڑھا دیا۔ تو نواز شریف نے بھی ہاتھ ملا لیا۔ گرمجوشی اور سرد مہری ساتھ ساتھ تھی۔ دیر تک دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے رہے اور ہلاتے رہے۔ یہ معلوم نہیں کہ زور کس نے زیادہ لگایا۔ لگتا ہے کہ یہ سب کام مودی صاحب نے کئے ہوں گے۔ اس نے نواز شریف کو ہنسانے کی کوشش کی۔ کوئی لطیفہ سنایا یا کیاکیا تھا کہ اس پر زیادہ وہ خود ہنس دئیے اور ہنستے رہے۔ نواز شریف بھی تھوڑے سے ہنس دئیے جس میں مروت بھی تھی تکلف بھی تھا اور احتیاط بھی تھی۔ وہ اپنے اظہار میں کامیاب رہے۔ مودی نے نواز شریف کے کندھے کو بھی ہاتھ مارا۔ شاید وہ جپھی ڈالنے کے موڈ میں تھے۔ مودی کو موڈی بننے میں دیر نہیں لگتی۔ نواز شریف کا انداز ملاقات دیکھ کر وہ کھسیانے ہو کے پھر ہنس دئیے اور بات ختم ہو گئی بات کیا تھی۔ کچھ پتہ نہیں چلا۔
یہ سارک کانفرنس بھی یونہی ختم ہو گئی۔ ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے“ اس بارہ آنے میں بھی آنے نواز شریف نے نہ دئیے ہوں گے مودی نے اپنا نقصان کیا۔ پوچھتے ہیں کہ اس سارک کانفرنس سے کیا حاصل ہوا۔ میں پوچھتا ہوں کہ پچھلی 17 کانفرنسوں سے کیا حاصل ہوا۔ اس کانفرنس سے ایک مصافحہ حاصل ہوا وہ بھی آدھا ادھورا۔ اب بھارت دوستی کا بخار اترنے لگا ہے۔ سیاسی بخار میں بدن بھی نہیں ٹوٹا۔ بہت مقبول شاعر احمد فراز کا ایک شعر یاد آیا ہے۔ یہ دونوں کو پیش کروں مگر زیادہ حقدار مودی ہیں
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
یہ شعر مودی کے لئے زیادہ ہے مگر اس پر غور نواز شریف کریں۔ انہوں نے کیا سمجھا تھا اور نکلا کیا۔ وہ مودی کی حلف وفاداری میں بھی گئے تھے مگر ان لوگوں میں دوسروں کے لئے وفا نہیں ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
بھارت پاکستان کے لئے عجب ہمسایہ ملک ہے جسے نہ دشمن ملک کہا جا سکتا ہے نہ دوست ملک کہا جاسکتا ہے اور اب جو مصرعہ میں لکھ رہا ہوںوہ بھارت کے علاوہ امریکہ کے لئے بھی ہے۔
نہ اس کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی
اس کی تشریح میں پورا کالم لکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ خود سوچیں اور سمجھیں۔ ہم امریکہ کی دشمنی افورڈ نہیں کر سکتے اور دوستی بھی بہت مشکل ہے۔ سارک جیسی تنظیمیں اور بھی دنیا میں ہیں جس سے فائدے اٹھائے جا رہے جس کی سب سے بڑی مثال ”یورپی یونین“ ہے۔ اس طرح کی تنظیموں میں شامل ملک ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے جذبات اور مفادات کا خیال رکھتے ہیں تو پھر کوئی بات بنتی ہے۔ جہاں تنازعات درمیان میں آ جائیں وہاں کسی فائدے کی توقع رکھنا فضول ہے۔ نقصان کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی سالانہ اجلاس ہوتا ہے جہاں دنیا بھر سے سربراہان حکومت اور مملکت شریک ہوتے ہیں مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ امریکہ اور بڑے ملک اپنی عملداری قائم رکھتے ہیں۔
سارک کانفرنس میں بھی بھارت کی برتری بالادستی اور عملداری قائم رکھنے کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا میں اسی طرح کا ملک بننا چاہتا ہے جیسے دنیا میں امریکہ کی حیثیت ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو حیثیت اور رول اسرائیل کا ہے وہی جنوبی ایشیا میں بھارت کا ہو۔ بھارت سارک تنظیم میں ایسی شارک بننا چاہتا ہے جو سیاست کے اس سمندر میں دندناتا پھرے
جبھی تو سارک میں چین کو شامل نہیں ہونے دیا گیا۔ اس میں ایران اور ترکی بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک زمانے میں ”آر سی ڈی“ بھی تو تھی جس میں پاکستان ترکی اور ایران تھے۔ پاکستان نے چاہا تھا کہ چین بھی سارک میں ہو مگر ایسا بھارت نے نہیں ہونے دیا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ چین کی موجودگی میں اپنی کھڑپینچی قائم نہیں رکھ سکے گا۔ مگر ابھی تک پاکستان کے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی برتری منوا نہیں سکا۔ سارک میں قابل ذکر ملک پاکستان اور بھارت ہیں۔ دوسرے ملکوں کو موقع ہی نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی موجودگی کا احساس دلا سکیں۔
آخری بات اس حوالے سے میرے ذہن میں اور دل میں یہ ہے کہ مشرقی بلاک بنایا جائے۔ جس میں چین اور روس بھی ہوں۔ سارک کے سب ممالک اور افغانستان ایران بھی ہوں۔ تو پھر مغربی بلاک کے مقابلے میں کوئی بات بنائی جا سکے گی۔ بھارت کو بھی اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہو گا۔ امریکہ اور مغربی دنیا سے روابط رہیں مگر؟