• news

اسحاق ڈار کو ٹاسک دیدیا گیا

 پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 30نومبر 2014ء کو ڈی چوک میں ایک بڑے جلسہ خطاب سے کرتے ہوئے پلان اے اور بی کی ناکامی کے بعد پلان’’ سی ‘‘کا اعلان کر دیا ہے ۔ انہوں نے 30نومبر‘‘ فیصلہ کن جنگ ‘‘کا دن قرار دیا تھا لیکن یہ دن بھی محض نعروں اوربلند بانگ دعووں کی نذر ہو گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے پارلیمنٹ ہائوس پر یلغار کی اور نہ ہی ریڈ زون کو عبور کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی نوبت آئی۔ ایسا اس وقت ممکن ہو جب ’’مارو مر جائو اورگھیرائو جلائو ‘‘ کا نعرہ لگانے والی پارٹی نے 42نکاتی معاہدے پر دستخط کر اپنے آپ کو حکومت کے سامنے سرنڈر کر دیا ۔جس کے بعد حکومت نے بھی تحریک انصاف کے کارکنوں کے لئے اسلام آباد کے داخلی راستے کھول دئیے اب کی بار پاکستان عوامی تحریک اور اس کی اتحادی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ق)،سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین نے ڈی چوک میں اپنے منہ بولے بھائی عمران خان کے شو میں’’ شامل باجہ‘‘ کی حیثیت سے شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح ڈی چوک میں ہونے والے جلسہ میں تحریک انصاف کو اپنی سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کا خوب اچھا موقع ملا ۔ جس میں شرکاء کی اکثریت کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے تھا یہی وجہ ہے جلسہ کے بعض مقرین نے پشتو میں خطاب کیا عمران خان نے ہوم ورک مکمل کئے بغیر 4دسمبر کو لاہور 8دسمبر کو فیصل آباد اور 12 دسمبر کو کراچی کو بند کرنے کے بعد عجلت میں 16دسمبر سقوط ڈھاکہ کے اس یوم سیاہ پر پورے پاکستان کو بند کرنے کا اعلان کر کے سیاسی حلقوں کو شدید تنقید کا جواز فراہم کر دیا۔ جس پر تاجر تنظیموں، ٹرانسپورٹرز اور عام لوگوں کے غم غسے کا اظہار یقیناً فطری عمل ہے۔ جس روز جماعت الدعوۃ کا مینار پاکستان کے سائے تلے کل پاکستان اجتماع منعد ہو رہا ہے ، تحریک انصاف نے لاہور کو بند کرنے کی تاریخ واپس لے لی ہے ۔ اب اسی طرح ملک کو بند کرنے کے لئے 16دسمبر کی بجائے18دسمبر کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تاجر تنظیموں اور ٹرانسپورٹرز کی جانب سے مخالفت کے بعد تحریک انصاف کو یہ بھی وضاحت کرنی پڑی ہے کہ اس روز شٹر ڈائون ہو گا اور نہ ہی پہیہ جام ہو گا ۔ اب کی بار عمران خان نے اپنی احتجاجی مہم کو ’’مذاکرات اور چار سے چھ ہفتے کے اندر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرانے کی ڈیڈ لائن سے مشروط کیا ہے۔تین بڑے شہر وں سمیت پورے ملک کو بند کرنے کی دھمکی کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان ’’ٹریپ‘‘ میں آگئے ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ وہ حکومت کی بنائی ہوئی پچ پر کھیلنے مجبور ہو گئے ہیں حکومت یہ سمجھتی عمران خان میں اتنا دم خم نہیںکہ وہ پوررا ملک یا شہر بند کرا دیں یہی وجہ ہے انہوںنے’’ پہیہ جام ہڑتال اور شٹر ڈائون‘‘ کو اپنے پروگرام سے نکا ل دیا ہے ۔ اگر عمران خان کے ملک کو بند کرنے کے پروگرام سے’’ پہییہ جام اور شٹر دائون ‘‘ نکا ل دیا جائے تو پھر یہ معمول کا احتجاج رہ جاتا ہے جس کا قبل ازیں 1977ء کی تحریک میں پی این اے کی کال پر پہیہ جام ہڑتال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔لہٰذا ایک سینئروفاقی وزیر نے عمران خان شو سے دو روز قبل ہی کہہ دیا تھا کہ’’ شامل باجہ ‘‘ انہیں ’’ سیاسی خود کشی‘‘ پر آمادہ کریں گے ۔عمران خان کی جانب سے ملک بند کرنے کی دھمکی پر حکومت کی طرف سے بھی سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید جن کے بارے میں عام تاثر ہے وہ دھیمے انداز میں گفتگو کرتے ہیں ، پہلی بار انہیں شدید غصے کی حالت میں دیکھا گیا انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ ملک بند کرنے والوں کا مقابلہ کیا جائے گا۔
اگلے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے مستقل چیف الیکشن  کمشنر کی تقرری پر وزیر اععظم محمد نواز شریف سے مشاورت کے دوران انہیں عمران خان سے مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا، جسے وزیر اعظم نے قبول کر لیا ۔وزیر اعظم نے ملاقات میں موجود وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور سینیٹر محمد اسحقٰ ڈار کو تحریک انصاف سے مذاکرات کی بحالی کا ٹاسک دے دیا دلچسپ امر یہ ہے کہ شاہراہ دستور پر دھرنا دینے والوں سے بخوبی نمٹنے کی صلاحیت رکھنے والے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جہاں پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر سے مذاکرات کرنے کے لئے تیار نہیں وہاں وہ اپنے دیرینہ دوست عمران خان کے ساتھ بھی ڈائیلاگ نہیں کرنا چاہتے ان کا خیال ہے کہ عمران خان کمٹمنٹ پوری نہیں کرتے لہذا وہ ان کی کوئی ذمہ داری قبول کرنے نہیں کر سکتے۔ اس بار حکومت نے ’’سیاسی غنڈہ گردی ‘‘کو وقت اور جگہ پر محدود رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے عمران خان پر واضح کر دیا تھا 14’’اگست کو حالات اور تھے، اب کچھ اورہیں۔ لہذا 30نومبر کو صورتحال یکسر مختلف رہی ۔ سیکیورٹی کے فول پروف نظام کی وجہ سے اہم سرکاری عمارات کی حفاظت کے لئے فوج طلب کرنے کی نوبت نہیں آئی تاہم وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جہاں دبائو کی پالیسی کے تحت تحریک انصاف سے اپنی شرائط منوا ئیں وہاں انہوں نے ریڈ زون کو موثر طور پر محفوظ رکھا اور تحریک انصاف کے کسی کا رکن کو شاہراہ دستور پر جانے نہیں دیا پچھلے چار ماہ سے حکومت نے عمران خان کے الزامات پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن چند روز سے عمران خان پر جوابی حملہ کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف جارحانہ انداز میں اشتہاری مہم بھی شروع کر دی گئی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات کے باوجود دونوں اطراف سے برف پگھل رہی ہے عمران خان جنہوں نے ساڑھے پانچ نکات تسلیم ہونے کے باوجود شاہ محمود قریشی کو مذاکرات کی میز سے واپس بلا لیا تھا اور وزیر اعظم محمدنواز شریف کے استعفے سے کم پر شاہراہ دستور سے واپس جانے کے لئے تیار نہیں تھے اب پلان اے اور بی کی ناکامی کے بعد ہر روز کنٹینر سے مذاکرات شروع کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔سیاسی جرگہ مذاکرات کی بحالی کرانے میں تھک ہار کر بیٹھ گیا تھا وزیر اعظم نے اپوزیشن لیڈر کا مشورہ مان لیا ہے اور انہوں نے سینیٹر محمد اسحق ڈار کو تحریک انصاف سے رابطہ کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے تحرک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے حکومت کی جانب سے ابتدائی بات چیت کی تصدیق کی ہے تاہم ابھی تک مذاکرات کی باضابطہ طور پر دعوت نہیں دی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان اسی صورت میں مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں جب تک عمران خان اپنے رویہ میں لچک پیدا کرتے ہیں۔ وہ وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبہ سے تو دستبردار ہو گئے ہیں اب انہیں جو ڈیشل کمشن کے قیام اور اس کے فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کرنا ہو گا بصورت دیگر بات آگے نہیں بڑھ سکے گی حکومت عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرانا چاہتی ہے جب کہ تحریک انصاف جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات سے وزیر اعظم کے استعفے کو مشروط کرنا چاہتی ہے اب ایک بار پھر مذاکرات کی میز کی میز سجنے لگی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان مذاکرات کی میز پر اپنے کس حد تک اپنے مطالبات منوانے میں منطق اور دلیل کا سہارا لیتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن