• news

تھر: غذائی قلت سے مزید 2 بچے جاں بحق سندھ ہائیکورٹ کے ازخود نوٹس کیس میں فیصلہ محفوظ

تھرپارکر + کراچی (نامہ نگار + وقائع نگار) تھرپارکر میں غذائی قلت نے مزید2 بچوں کی جان لے لی ہے۔65 روز میں جاں بحق بچوں کی تعداد165ہو گئی ہے۔ تھر میں  آئے روز بھوک، پیاس اور بیماری سے نڈھال بچے موت کو گلے لگا رہے ہیں، مٹھی میںجمعرات کو بھی دو مائوں کی گودیں اجڑ گئیں۔ سول ہسپتال میں اس وقت بھی50  بچے زیر علاج ہیں، بیشتر کی حالت تشویشناک ہے، ایک بچے کو حیدرآباد منتقل کر دیا گیا۔ ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات نے بھی بے بس مکینوں کو اذیت سے دوچار کر رکھا ہے، تھر کے غریب باسی ادویات کو ترس رہے ہیں۔ انتظامیہ کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے،گندم کی تقسیم کا عمل بھی مکمل نہیں کیا جاسکا، متعدد دیہات میں ٹیوب ویل بند ہیں۔ سینکڑوں مکین اپنے گھر بار چھوڑ گئے، متاثرین نے حکومت سے فوری امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے تھر قحط سالی ازخود نوٹس کیس میں معاملے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور درخواست عدالت عالیہ میں قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔کیس کی سماعت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس شاہنواز طارق پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل عبدالفتح ملک نے میڈیا پر شدید تنقید کرتے کہا میڈیا حکومتی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔تھر کا معاملہ انتظامی ہے،اس لیے میڈیا اور عدالت انتظامی امور میں مداخلت کی مجازنہیں ہیں۔عدالتیں چار لائن کا آرڈر کرتی ہیں اخبارات 40لائن کی خبر شائع کردیتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا کا کردار ملک میں ہمیشہ مثبت رہا ہے اور میڈیا معاشرے کو صحیح سمت کی طرف لے جارہا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا درخواست گزار پائلر سمیت دیگر این جی اوزنے سستی شہرت کے حصول اور بیرون ملک سے تھر کے نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز لینے کے لئے عدالت عالیہ میں درخواستیں دائر کررکھی ہیں۔ان سے پوچھا جائے کہ بیرون ملک سے فنڈنگ کے بعد کسی ایک این جی او نے پانی کی ایک بوتل بھی تھر کے قحط زدہ علاقوں میں پہنچائی؟ دوران سماعت پائلر کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا  چیف سیکرٹری سندھ اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ میں خود اعتراف کرچکے ہیں تھر میں قحط زدہ لوگوں کو ریلیف نہ پہنچانے میں 8افسران ملوث ہیں اور ان میں سے 3 افسران کو معطل بھی کیا گیا تھا لیکن سیشن جج مٹھی اور سیشن جج عمرکوٹ کی رپورٹس کے بعد چیف سیکرٹری دیگر غفلت برتنے والے افسران کے خلاف کارروائی سے متعلق عدالت کو آگاہ نہیں کیا۔ چیف سیکرٹری سندھ، وفاقی حکومت اور دیگر فریقین کی جانب سے بھی الگ الگ رپورٹس جمع کرائی گئیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں عدالت کو بتایا کہ حکومت سندھ نے تھر کے معاملے میں باضابطہ طور پر وفاقی حکومت سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ای پیپر-دی نیشن