حکومت یا ریلوے آئین سے بالاتر معاہدے نہیں کر سکتی، جسٹس ثاقب نثار
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) لاہور ریلوے کی 140 ایکٹر اراضی پر گالف کلب کی تعمیر سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ معاہدہ آئین اور قانون قواعد و ضوابط کے تحت ہوا ہے کہ نہیں۔ اس سے ریلوے کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں؟ عدالت مستقبل کے لئے مثال سیٹ کرنا چاہتی ہے، حکومت یا ریلوے آئین و قانون سے بالاتر ہوکر خود سے کوئی غیرقانونی معاہدے نہیں کر سکتی اگر ایسا ہے تو آئین و قانون کی کیا ضرورت ہے؟ رولز کی خلاف ورزی پر ہی عدالت ایکشن لیتی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عوام کے مفاد کا مقدمہ ہو اور اس میں عوام کے مفادات کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت نے معاہدے کی لیز کینسل کرنے کا حکم دیا تو اس سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل انتظار حسین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ریلوے کے وکیل گل حسن زیب نے دلائل دینے تھے کہ وقت کی کمی کے باعث مقدمہ کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ریلوے نے اشتہار دیا تھا جس پر نیلامی کے بعد 20 اپریل 2001ء کو 140 ایکڑ اراضی کی 49 سال کے لئے لیز، حسنین کنسٹرکشن، یونی کان اور میکس کارپوریشن کو دی گئی، یہ جوائنٹ وینچر لیز معاہدہ ہے جس میں متعلقہ رولز کے سیکشن 65کے قوائدو ضوابط کو فالو نہیں کیا گیا، مقصد بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ، گلف کلب کی بین الاقوامی ممبرشب، فرسٹ کلاس ہوٹل کی تعمیر ایسے مفادات حاصل کرنا تھے۔ عدالت نے قرار دیا کہ کیا مذکورہ مفادات حاصل ہوئے؟ عدالت نے دیکھنا ہے کہ معاہدے میں قواعد و ضوابط کو فالو کیا گیا صر ف ان ہی کمپنیوں کو کیوں لیز دی گئی اس کیلئے کیا معیار اختیار کیا گیا؟ جسٹس افضل نے کہا سب کچھ اندھیرے میں نہیں کیا جا سکتا معاہدے شفاف ہونے چاہئیں۔