مسخ شدہ نعشیں ملنے پر سندھ اسمبلی میں احتجاج، سپیکر نے قراردادیں لانے نہ دیں
کراچی (این این آئی) سندھ کے وزیر جیل خانہ جات، معدنیات و معدنی ترقی اور اینٹی کرپشن منظور حسین وسان نے صوبے میں لاپتہ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کبھی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہم سندھ کے مظلوم اور محکوم عوام کی آواز ہر اعلیٰ فورم تک پہنچائیں گے اور سندھ کے عوام کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کریں گے۔ وہ جمعہ کو سندھ اسمبلی میں امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے بیان دے رہے تھے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت سحرعباسی نے بھی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر سخت احتجاج کیا۔ وہ اس معاملے پر قرار داد بھی پیش کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے علاوہ نیشنل پیپلز پارٹی کے مسرورخان جتوئی بھی قرارداد لانا چاہتے تھے لیکن سپیکر نے اجازت نہیں دی۔ منظور حسین وسان نے کہا کہ مسلسل 8، 10 دن سے سندھ کے کسی نہ کسی ضلع میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ اپوزیشن والوں کو پتہ ہے کہ یہ ظلم کون کر رہا ہے لیکن وہ نام نہیں بتاتے۔ ہم مسخ شدہ لاشوں کے معاملے پر ہم وزیر اعلیٰ سندھ سے بات کریں گے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ سندھ کے نوجوانوں کے ساتھ زیادتی ہو۔ مسخ شدہ لاشوں کے مسئلے پر پورے سندھ کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ان لوگوں تک پہنچیں، جو ہمیں یہ لاشیں دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ کسی بے گناہ کو قتل کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ سندھ میں نوجوانوں کو مارا جا رہا ہے۔ اگر ان کا کوئی جرم ہے تو انہیں پکڑ کر عدالت میں لایا جائے اورجرم ثابت ہونے پر انہیں سزا دی جائے لیکن انہیں کسی جرم کے بغیر ٹارچر کرکے ماردینا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا بہت بڑا ظلم ہے۔ حکومت اس حوالے سے ایجنسیز کے ساتھ بات کرے۔ نصرت سحر عباسی نے کہا کہ کراچی سے کشمور تک لوگ چیخ رہے ہیں اور دھاڑیں مار رہے ہیں۔ ماؤں کے نوجوان بچے گم کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے لوگ حیران ہیں کہ وہ کس ریاست میں رہ رہے ہیں۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں۔ عدالتیں، پولیس اور تھانے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ پتہ نہیں کون لوگ ہیں، جو نوجوانوں کو لے جاتے ہیں اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ ہم اپنی دھرتی پر غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ حکومت سو رہی ہے۔ ہمارے صوبے کو بلوچستان نہ بنایاجائے۔ قبل ازیں اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے ارکان نے صوبہ میں امن وامان کی صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت سندھ حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے اورنگی ٹاؤن میں ایم کیو ایم کے رکنیت سازی کیمپ پر بم حملے کا ذکر کیا، جس میں ایک شخص جاں بحق اور تین ارکان سندھ اسمبلی سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ محمد حسین نے کہا کہ سندھ بالخصوص کراچی میں امن وامان کی صورت حال خطرناک ہو چکی ہے۔ کونسا ایسا جرم ہے، جو یہاں نہیں ہوتا۔ طالبان اور القاعدہ کے لوگوں کے ساتھ اب داعش کے لوگ بھی یہاں سرگرم ہو گئے ہیں۔ اندرون سندھ بھی صورت حال بہت خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو نقصان پہنچا تو پاکستان کی سالمیت اور معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ ایم کیو ایم کے زبیر احمد خان نے کہا کہ حیدر آباد میں ہمارے ساتھی ضیاء الدین کو شہید کر دیا گیا۔ حیدر آباد میں مغرب کے بعد شہری گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر ظفر کمالی نے کہا کہ روزانہ بے گناہ لوگ شہید کر دیئے جاتے ہیں اور ان کے قاتل نامعلوم ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ بدامنی سندھ حکومت کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، حکومت ہوش کے ناخن لے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا سندھ خصوصاً کراچی کا امن وامان کا مسئلہ بہت دیرینہ ہے ۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا ۔ کلاشنکوف اور منشیات کا کلچر دیا گیا ۔ اندرون سندھ ڈاکو راج اور کراچی میں بوری بند لاشوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ارکان نے بلا وجہ سندھ حکومت کو نااہل قرار دیا اور 25 ، 30 سال کا ملبہ بلا وجہ وزیر اعلیٰ سندھ پر ڈال دیا ۔ انہوں نے کہاکہ 6 سال سے سندھ کا محکمہ داخلہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے ۔ اس سے پہلے یہ ایم کیو ایم کے پاس تھا ۔ اسی زمانے میں عبداللہ مراد اور منور سہروردی کو شہید کیا گیا ۔ 12 ربیع الاول کا سانحہ رونما ہوا ۔ کور کمانڈر کراچی اور فرانسیسی انجینئرز پر حملے ہوئے ۔ 12 مئی 2007ء کو کون بھول سکتا ہے ۔ اسی زمانے میں سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ 18 اکتوبر کا ہوا ۔ اس کے علاوہ بے شمار عام لوگوں اور سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ ہماری حکومت نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک ختم کیے ، دہشت گرد گرفتار کیے ۔ ٹارگٹ کلنگ کم ہوئی۔ ہر علاقے میں گرفتاریاں ہو رہی ہیں ۔ جب وزارت داخلہ ایم کیو ایم کے پاس تھی تو رحمن ڈکیت جیل سے فرار ہو گیا تھا لیکن وہ ہمارے دور میں مارا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ ارباب رحیم کے دور میں ، جب ایم کیو ایم کا وزیر داخلہ تھا تو 302ء کے مقدمات میں ملوث 45 لوگوں کو 5 ، 5 سال کے لیے پیرول پر رہا کر دیا گیا ۔ وہ سب لوگ بیرون ملک بھاگ گئے۔ کیا عدالتوں نے اس وقت آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔