”کشمیر 2014“ اور کشمیری ویمن وائس
ممتاز شاعرہ معروف کالم نگار اور کئی کتابوں کی مصنف عائشہ مسعود کی کتاب ”کشمیر 2014“ میرے سامنے ہے۔ یہ کتاب بڑی اہم ہے اور قومی نوعیت کی ہے۔ میں نے عائشہ مسعود کو فون کیا تو یہ عجیب حسن اتفاق تھا کہ وہ کشمیر ہاﺅس اسلام آباد میں کشمیر کانفرنس کے اجلاس میں موجود تھیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کشمیری ویمن وائس کے زیراہتمام منعقد ہو رہا ہے۔ دونوں کشمیروں کی خواتین اس سیمینار میں شرکت کر رہی ہیں۔ سری نگر سے مشہور کشمیری حریت پسند لیڈر خاتون نصرت اندرابی نے دو ممتاز کشمیری خواتین کو خاص طور پر اس کانفرنس میں بھجوایا ہے۔ مجھے ان کے نام عائشہ مسعود نے ایک سرگرم اور اس کانفرنس کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف خاتون نیر ملک سے پوچھ کر بتائے حور بشیر اور محمودہ شیخ کے مقبوضہ کشمیر سے یہاں آئی ہیں۔ وہ بہت جوش و خروش اور ذوق و شوق دیکھ کر بہت جذباتی ہو رہی تھیں۔ نیر ملک جموں اینڈ کشمیری ویمن وائس کی صدر ہیں۔ میرے ساتھ فون پر ان سے بات عائشہ مسعود نے کرائی۔ انہوں نے جلدی میں اپنی تنظیم اور اس کانفرنس کے بارے میں بتایا۔ اتنے میں وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید پہنچ گئے مگر عائشہ نے مجھے ہال میں ایک بینر کے بارے میں بتا دیا۔ لکھا ہوا تھا:
”مودی صاحب! بولی چلے گی گولی نہیں“
ہم جب طالب علم تھے تو ایک نعرہ بہت جوش سے گونجا کرتا تھا۔ لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی۔“ یہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر صادق آتا ہے۔ گولی اور لاٹھی کے ذریعے کوئی بھارتی سرکاری امور سلطنت نہیں چلا سکی تو نریندر مودی کیسے چلا لے گا۔ نام نہاد بھارتی الیکشن میں جو پیغام دنیا والوں کو جاتا ہے وہی پیغام آج بھی کشمیر کی فضاﺅں میں لہو لہان الفاظ رقم کرتا ہے۔
سارک کانفرنس میں بھی نواز شریف نے بڑی ثابت قدمی سے پاکستان کے موقف کو پیش کیا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ روابط کے لئے بہت مستحکم رویہ رکھتے ہیں۔ مذاکرات کے لئے بہت زیادہ اہمیت ان کے دل میں ہے۔ وہ نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں بھی شریک ہوئے تھے۔ وہ اپنی طرف سے دوستانہ جذبات کا تاثر دینا چاہتے تھے مگر مودی سرکاری نے انہیں بھی بدظن کر دیا۔ سرحدوں پر اشتعال انگیزی نے سب کو بہت ڈسٹرب کیا مگر ان کا یہ جملہ سنیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات بھارت نے بند کئے ہیں۔ اب یہ مذاکرات بھی بھارت ہی شروع کرے گا۔
یہ بھی درست ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جتنا بھارت کے لئے اہم ہے پاکستان کے لئے بھی اہم ہے۔ مگر فائدہ نقصان زیادہ بھارت کا اس سے وابستہ ہے۔ بھارت ان تنازعات میں نہ الجھتا تو بین الاقوامی طور پر اس کی حیثیت بہت زیادہ ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ کئی بھارتی لیڈر عالمی لیڈر بن سکتے تھے مگر کشمیر کے مسئلے اور بھارتی مسلمانوں پر مظالم نے انہیں یہ موقع نہ دیا۔ اب بھی موقع ہے کہ وہ ان مسائل سے جان چھڑائیں اور اپنے ملک کو اور اپنی ذات کو بلندیوں سے سرفراز کریں۔ جو بھی بھارتی حکمران اور سیاستدان ان خود ساختہ مسائل سے نکلے گا ایک بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے گا۔ اس کی بڑی مثال ہے پنڈت نہرو کی جو خود ہی اقوام متحدہ گئے تھے مگر اب تک قراردادوں پر عمل نہیں ہوا۔ وہ یہ کام کر جاتے تو آج بھارت بہت بڑے ملکوں کی صف میں کھڑا ہوتا اور اب پنڈت نہرو کی حیثیت مسٹر گاندھی سے کم نہ ہوتی۔ گاندھی کشمیر کے مسئلے سے پہلے ہی آنجہانی ہو گئے تھے۔ کشمیر میں آج تک امن قائم نہیں ہوا۔ کوئی بھارتی حکومت کامیاب اور سرخرو نہیں ہوئی۔
نریندر مودی کا دامن بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے خون سے داغدار ہے۔ وہ جب اقوام متحدہ گئے تو ان کے خلاف بھارتی مسلمانوں پر مظالم کے مقدمے کا شور سنائی دے رہا تھا جس نے مودی کو ابنارمل کر دیا۔
آج بھی کشمیر کانفرنس میں جن جذبات کا اظہار ہو رہا تھا وہ بھارتی حکمرانوں کے لئے امن کے پیغام سے سجا ہوا تھا۔ ”گولی نہیں بولی“ کے نعرے کے اندر چھپے ہوئے راز کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ طاقت کے ذریعے کسی خطے کے لوگوں کو تسخیر کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ اسی طرح اہم ہے کہ پاکستانی خواتین و حضرات بھی سمجھتے ہیں کہ جنگ مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے مگر کوئی حل تو ہو جو اس خطے کو آگ اور خون کے طوفان سے بچا لے۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے نقصان ہوا ہے اور ہو گا مگر بھارت کا نقصان زیادہ ہو گا۔
کانفرنس میں بہت زبردست اور دلیر خاتون عطیہ عنایت اللہ بہت نمایاں تھیں۔ وہ خواتین کے حقوق کے لئے بہت سرگرم رہتی ہیں۔ آج کشمیری خواتین کے لئے بھی پورے جذبے سے سمجھتی ہیں کہ اب اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل آنا چاہئے۔ یہ مسئلہ زیادہ دیر تک مسئلہ نہیں رہے گا۔ کوئی حل ہو گا۔ ورنہ بہت کچھ تحلیل ہو جائے گا۔ اس سے پہلے بھی بی جے پی کے بھارتی وزیراعظم واجپائی کے دور میں کوئی امید چل پڑی تھی۔ یہ حیرت مودی کے رویے کی منتظر ہے۔ یہ آدمی پاکستان اور مسلمان دشمنی کے حوالے سے مشہور ہے۔ شاید قدرت اس بندے سے کوئی بڑا کام لے اور وہ سارے تنازعات حل ہو جائیں جو دونوں ملکوں کو بڑے عرصے سے پھنسائے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ملکوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ کشمیری ویمن وائس کے زیراہتمام ایک بھرپور کانفرنس کے ذریعے یہ آواز بھارت والوں تک پہنچ جائے۔ اس کانفرنس کی اہمیت یہ تھی کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم چودھری عبدالمجید بھی پہنچے۔
عائشہ مسعود نے اپنی ایک اہم کتاب ”کشمیر 2014“ وزیراعظم آزاد کشمیر کو پیش کی۔ ان کی کتاب کا ذکر کانفرنس میں بڑی دلچسپی سے کیا گیا۔ یہ کتاب ابھی لکھی جا رہی تھی کہ اس کے پہلے ابواب کو پڑھ کر ڈاکٹر مجید نظامی نے بہت پسند کیا اور عائشہ کو ہدایت کی کہ وہ جلدازجلد مکمل کریں۔ اس کے لئے مجید نظامی کے دوست جسٹس (ر) آفتاب فرخ نے بھی بہت سراہا۔ عائشہ نے اس کتاب کا انتساب بھی ڈاکٹر مجید نظامی کے نام کیا ہے اور یہ جملہ بھی درج ہے کہ نظامی صاحب کو کشمیر کی آزادی کی نوید فرشتوں کی زبانی بہشت میں ملے گی اور اس کے نتیجے میں اپنا یہ خوبصورت شعر بھی عائشہ نے لکھا ہوا ہے۔
پلٹ کر دیکھنا اس کو ضروری اس لیے بھی تھا
فریضہ تھا محبت کا ادا ہونا ضروری تھا
اس سے پہلے صفحے پر الفیصل ناشران و تاجران کتب والوں نے بھی عائشہ مسعود کا ہی یہ شعر رقم کیا ہوا ہے۔
ہم نے تو ماجرائے شب برسرعام کہہ دیا
اب یہ نصیب شہر ہے جاگ اٹھا ہو یا نہ ہو
ڈاکٹر مجید نظامی نے کشمیر کے لئے جو تحریک نوائے وقت اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے حوالے سے چلا رکھی تھی وہ جاری و ساری رہے گی اور عائشہ نے ٹھیک لکھا ہے کہ انہیں جنت میں کشمیر کی آزادی کی خوشخبری ملے گی۔ وادی جنت نظیر کشمیر سے شہید ہونے والوں اور والیوں کے خون سے معطر ہوائیں جنت تک ضرور پہنچیں گی جہاں مجید نظامی صاحب بھی موجود ہوں گے۔ مجید نظامی کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”کشمیر 2014“ لکھ کر عائشہ مسعود نے اپنا قومی فریضہ سرانجام دیا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ ایک مرتبہ پھر سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھرپور آغاز ہونے والا ہے۔“ یہ شاندار اور زبردست کتاب شائع ہوئی ہے تو ڈاکٹر مجید نظامی بظاہر اس دنیا میں نہیں ہیں۔
عائشہ پہلی کتاب ڈاکٹر مجید نظامی کو پیش کرنا چاہتی تھیں۔ وہ لاہور آئیں اور اپنی کتاب رمیزہ مجید نظامی اور مجھے پیش کی۔ یہ اعزاز جو ڈاکٹر مجید نظامی کے ساتھ عقیدت سے جڑا ہوا ہے۔