بابری مسجد شہادت کی 22ویں برسی، بھارتی مسلمانوں نے یوم سیاہ منایا
نئی دہلی(آئی این پی) بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں 22 سال قبل انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کا دن ہفتہ کو بھارت میں بھر میں مسلمانوں نے انتہائی سوگ کے ساتھ یوم سیاہ کے طور پر منایا ، بھارت کے کئی شہروں میں اس واقعہ کی مذمت کیلئے تقریبات منعقد ہوئیں ، بھارت بھر میں ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کیلئے سکیورٹی کے سخت انتظامات ۔انتہا پسند جنونیوں کے ہاتھوں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 6 دسمبر کو 22 برس مکمل ہو گئے۔ بھارتی مسلمانوں نے یہ دن یوم سیاہ کے طور پر منایا، پورے ملک میں سیکیورٹی انتہائی سخت کی گئی، 22 برس پہلے اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جب سنگھ پریوار کی ذیلی پارٹیوں بی جے پی اور شیوسینا کے ہزاروں بنیاد پرستوں نے حملہ کر کے سولہویں صدی کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ بھارت سمیت دنیا بھر میں ہندو بنیاد پرستوں کے اس عمل کی مذمت کی گئی اور مسجد کو اسی جگہ دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔دریں اثنا چند دن قبل بابری مسجد کے اصل مدعی محمد ہاشم انصاری نے ایودھیا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی اب مزید نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ قیامت تک چلتا رہیگا اور اسکا کوئی حل نہیں نکلے گا۔ ہاشم انصاری نے کہا کہ وہ اپنی پوری زندگی انصاف کیلئے لڑتے رہے اور دونوں جانب کے مذہبی اور سیاسی رہنما اس تنازع سے سیاسی فائدہ اٹھاتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ 65 برس تک مقدمہ لڑتے لڑتے وہ تھک چکے ہیں اور وہ اب ’بھگوان رام‘ کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ اس مقدمے کی مزید پیروی نہیں کریں گے۔ بی بی سی کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی اور وشوا ہندو پریشد بابری مسجد کی شہادت کا جشن ہر برس 18 دسمبر کو ’یوم شجاعت‘ کے طور پر مناتی رہی ہیں۔ اس برس ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی ایما پر یہ جشن ہلکے طور پر منایا جا رہا ہے۔ چونکہ بی جے پی اقتدار میں ہے اسلئے وہ مودی حکومت کیلئے کسی طرح کی مشکل نہیں پیدا کرنا چاہتے۔ رپورٹ کے مطابق بابری مسجد 6 دسمبر 1992ء کو شہید کی گئی تھی۔ مسجد کے تین بڑے بڑے گنبد تھے۔ درمیانی گنبد کے نیچے مِنبر کے مقام پر ایک عارضی مندر بنا دیا گیا ہے اور وہاں وہی رام کی مورتی رکھی گئی جو دسمبر 1949ء میں ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والے ایک سادھو نے مسجد کے اندر رکھ دی تھی۔ ہائیکورٹ اس مقدمے کا فیصلہ کرچکی ہے جس کے تحت مسجد کی اصل زمین رام مند کو دیدی گئی ہے اور مسجد کے فریق سے کہا گیا ہے وہ اس احاطے سے دور کہیں اپنی عبادتگاہ بنالیں۔ مسجد کے فریقین نے سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے۔ فیصلہ آنے میں برسوں میں لگ سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 95 برس کے ہاشم انصاری نے بہت تکلیف کے ساتھ کہا تھا کہ جمہوریت تو اسی دن ختم ہوگئی جس دن بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی۔ انہوں نے کہا یہ تنازع بنیادی طور ایک سیاسی کھیل تھا اور جس کا سب سے اہم کردار کانگریس تھی۔ انہوں کہا کہ آپ بابری مسجد لے جائیے مجھے جمہوریت اور امن و آشتی لوٹا دیجئے، مجھے بابری مسجد نہیں چاہئے۔ بی بی سی کے مطابق ہاشم انصاری کا بیان کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے کی اب پیروی نہیں کریں گے تو وہ ایک سیکولر، ایماندار اور شکستہ دل کا کرب تھا جو 65 برس سے اس مسجد کی بازیابی کی امید کرتا رہا جہاں کبھی انہوں نے نماز پڑھی تھی۔ بھارت کی عدلیہ نے پہلا فیصلہ دینے میں 60 برس لگا دئیے۔ حتمی فیصلہ کیلئے سماعت کا ابھی آغاز ہوا ہے۔