فوج، سیاسی جماعتیں اور عوام
کیا نیا پاکستان بنانے کے لئے ہمیں بہت کچھ بھلانا پڑے گا؟ بہت دکھ ہوا جب مجھے پتہ چلا کہ عمران خان سقوط ڈھاکہ کے روز احتجاج کے طور پر سارا پاکستان بند کروانا چاہتے ہیں۔ 16 دسمبر کا دن، سقوط ڈھاکہ، اسلامی تاریخ میں ایک اور کربلا کا نام ہے۔ اس روز سیاہ پاکستان کے جنرل نیازی نے پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہندوستانی جنرل کے آگے نوے ہزار سپاہیوں سمیت ہتھیار ڈالے تھے۔
اس دن سرخی ایسے تھی اخباروں پر
گونگے ہو گئے شہر کے سارے ہاکر بھی
توانا، سرو قد، خوبرو نیازیوں کی ساری خبر رکھنے والے کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا تھا کہ ’کاش! جنرل نیازی، نیازی نہ ہوتا یا پھر میں نیازی نہ ہوتا‘۔ میں نے عمران خان کو مسیج بھیجا کہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں سے کسی ایک بندے کو بھی 16 دسمبر کی افسردگی یاد نہ آئی۔ ایک درد دل رکھنے والے صاحب نے کہا تھا کہ ’مجھے اس روز بیلوں کے گلے میں بجنے والے گھنگھرو بھی رنج پہنچاتے ہیں‘۔ بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ عمران خان نے 4دسمبر کو لاہور بند کرنے کا اعلان بھی کیا۔ افسوس صد افسوس! کور کمیٹی کے تمام لاہورئیے ممبران لاہور کے درودیوار سے کس قدر بیگانہ نکلے۔ 4 اور 5 دسمبر کو یادگار پاکستان لاہور حافظ سعید کی جماعت الدعوة کا دو روزہ کنونشن تھا۔ ان کے اشتہاروں سے بھری لاہور شہر کی دیواریں چیخ چیخ کر اعلان کر رہی تھیں۔ حافظ سعید کے پاس پاکستان بھر میں سب سے زیادہ تربیت یافتہ کارکن موجود ہیں۔ آپ اس جملہ میں لفظ ’مسلح‘ کا اضافہ بھی کر لیں۔ پھر کیا 4 دسمبر کو لاہور بند کرنے کے تحریک انصاف کے اعلان میں آپ کوئی فراست نامی چیز ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کیا شاندار بے خبری ہے۔ اگلے ہی روز عوامی ردعمل پر عمران خان نے اپنے پروگرام میں ترمیم کر دی۔ 16 دسمبر کو پورے ملک اور 4 دسمبر کو لاہور بند کرنے کی تاریخیں بدل دی گئی ہیں۔ پھر شہروں کو بند کرنے کے پروگرام سے بھی واپسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اب تاجروں کو بتایا جا رہا ہے کہ بازاروں کو زبردستی بند کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ ہماری پڑھی نوجوان نسل عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔ پھر گھریلو خواتین پہلی مرتبہ سیاسی جلسوں میں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ معصوم بچیاں کیا جوش و خروش سے اپنے چہروں پر تحریک انصاف کا جھنڈا بنواتی ہیں اور ساتھ ہی عمران خان کی تصویر والی مہر کا ٹھپہ بھی اپنے چہرے پر لگواتی ہیں۔ ابھی کسی ملا مولوی کی اس غیر محرم تصویر پر نظر نہیں پڑی۔ سو معصوم بچیوں کا یہ معصوم سا شوق جاری ہے۔ عمران خان کی مقبولیت میںسب سے زیادہ کردار نواز، زرداری بھائی چارے کا ہے۔ دونوں سے مایوس ووٹرز تیسری سمت دیکھنے پر مجبور ہیں۔ تیسری سمت قابل ذکر صرف عمران خان ہیں۔ تحریک انصاف عمران خان سے شروع ہو کر عمران خان پر ختم ہو جاتی ہے۔ اب تو تحریک انصاف کے منشور کا مطلب بھی عمران خان ہے۔ لیکن ایک سوال ہے کہ صرف عمران خان کی جرات، صداقت اور دیانت سے کتنی دیر کام چلایا جا سکے گا؟ ایم کیو ایم کا جلسہ جلوسوں کا ریکارڈ بھی بہت شاندار ہے۔ اب حیدر آباد اپنے ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہم پر ہاتھ رکھے تو ہم بھی ایسا دھرنا دیں گے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔ اب کیا یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم اس پر بھی ضرور تبصرہ کریں۔ آگے چلیں۔ لاہور میں آنکھ نہ رکھنے والوں پر پولیس تشدد ہوا۔ ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا۔ ڈی ایس پی کی تنزلی کر دی گئی۔ اے آنکھ رکھنے والے انسانوں! کیا ڈی ایس پی سے آگے ذمہ داری کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے؟ یہ پنجاب اور مرکز میں حکومتی پارٹی کیا قصہ کہانی ہے۔ ان دنوں اس جماعت کے بیچارے اہل دانش اور کالم نگار میاں نواز شریف کی کروڑوں روپے مالیت کی رسٹ گھڑی کا جواز عمران خان کی چپل کے بکل میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھکر میں ضمنی انتخاب ہوا۔ تحریک انصاف اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا ناٹک رچائے بیٹھی ہے۔ ن لیگ اپنے امیدوار کا فیصلہ کرنے سے قاصر رہی۔ پیپلز پارٹی ان دنوں ویسے ہی الیکشن سے چھٹی پر ہے۔ مولانا طاہرالقادری نے اپنا امیدوار کھڑا کیا اور الیکشن میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کا امیدوار تیسرے نمبر پر آیا کہ امیدوار ہی تعداد میں تین تھے۔ بھکر کے ضمنی انتخابات سے یہ پیغام آیا ہے کہ پاکستانی سیاست سے برادری اور شخصیت کو نکالا نہیں جا سکتا۔ پنجاب میں جو سیاسی جماعت حکومت سے باہر ہو، اسے کالا باغ ڈیم ضرور یاد آتا ہے۔ جیسے ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے افسران کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ ق لیگ کو ان دنوں کالا باغ ڈیم کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ گجرات کے چودھری ان دنوں صرف کالا باغ ڈیم پر تقریر فرماتے ہیں۔ وہ اللہ بھلا کرے، ق لیگ کے خالق جنرل پرویز مشرف کا کہ انہوں نے بیچ چوارہے ق لیگ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق کالا باغ ڈیم نہ بن سکنے کی وجہ صرف ق لیگ ہے۔ کالا باغ ڈیم پر ایک عدد کتاب لکھنے والے گجرات سے ہمارے بزرگ اصغر گھرال ایڈووکیٹ یہ بات نوٹ فرما لیں۔ ایک بات اور بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ پرویز مشرف نے کالا باغ ڈیم بنانے کی خلوص دل سے کوشش کی تھی۔ انہوں نے سندھیوں کو اس سلسلے میں قائل کرنے کی بڑی کوشش کی تھی لیکن جو آپ کی بات سننا ہی نہ چاہے، اسے آپ قائل کیسے کر سکتے ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کی سنیں۔ آصف زرداری سے ان دنوں اپنا بلاول بھٹو نہیں سنبھالا جا رہا۔ پیپلز پارٹی ان کے قابو بھلا کہاں آئے گی۔ گوجرانوالہ سے ان کے اچھے سارے امیدوار تحریک انصاف میں بھاگے دوڑے جا رہے تھے۔ آصف زرداری کا ہیلی کاپٹر گوجرانوالہ کے ایک خوبصورت سے فارم ہاﺅس میں اترا۔ مرغوں، تیتروں، بٹیروں کی کم بختی آئی۔ اللہ اللہ خیر صلی۔ اور بے چارے بھٹو کے عمر رسیدہ جیالے:۔ ....
عجیب حال ہے افتادگان الفت کا
اسی میں خوشی ہیں کہ اس بزم میں بلائے گئے
اب ان کے امیدواروں نے چند دنوں کے لئے اپنی تحریک انصاف کی طرف روانگی موقوف کر دی ہے۔ باقی جو ہونی ہے وہ تو ہو کر رہتی ہے۔ اس مرحلہ پر اگر واشنگٹن سے یہ آواز آتی ہے کہ پاکستان کی فوج ہی ملک کو متحد رکھنے والی قوت ہے، تو آخر اس میں جھوٹ ہی کیا ہے۔ پھر آئیڈیاز 2014 میں ہمارے آرمی چیف کی تقریر کسی عسکری قائد کی بجائے ایک قومی رہنما کی تقریر دکھائی دیتی ہے۔ انہیں کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات حل نہ ہونے کی صورت میں خطے میں بدامنی کا اندیشہ نظر آ رہا ہے۔ عوام ایک اکلوتی اکائی کا نام نہیں۔ یہ مختلف طبقوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ان طبقات کی شعوری سطح بھی مختلف ہوتی ہے۔ ہماری کاکول اکیڈمی میں اس تعلیم و تربیت کا بہتر بندوبست موجود ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جس کی بھی تعلیمی اسناد ذرا دھیان سے چیک کریں وہی ایف اے فیل، بی اے پاس نکلتا ہے۔ افتخار احمد عدنی نے جسٹس کیانی کی کتاب ”افکار پریشاں“ کا پیش لفظ اس جملہ سے شروع کیا۔ ہم اپنے کالم کا اختتام اسی سے کرتے ہیں۔ ”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اقتدار اعلی تفویض فرمایا افواج کو، پھر عوام کو افواج کا اور افواج کو اپنے مفاد کا تابع کیا“۔ آپ اس میں عوام کے ساتھ سیاسی لیڈروں کا اضافہ فرما لیں۔