• news

لاہور میں 25 برسوں میں کوئی بڑا ٹیچنگ ہسپتال نہ بن سکا

لاہور(ندیم بسرا) پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں پچھلے 25برسوں میں کوئی نیا بڑا سرکاری ٹیچنگ ہسپتال نہ بن سکا۔ اس کے باعث شہر کے 11 ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں روزانہ 14 ہزار سے زائدآنے والے مریضوں میں سے 60 فیصد کو علاج کی سہولتیںنہیں ملتیں۔ آبادی اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک بیڈ پر 12 مریضوں کی شرح نکلتی ہے جبکہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں سرجنز اور پروفیسرز کی تعیناتی آج تک نہیں ہوسکی۔ سینئر رجسٹرار یا پی جی ٹرینر ہی ہسپتالوں میں آنیوالے انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو چیک کرتے ہیں۔ ہسپتالوں کے ایم ایس صاحبان نے سہولتوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مکمل اقدامات نہیں کئے۔ معلو م ہوا ہے کہ لاہور کے میوہسپتال میں 2 ہزار، جناح میں 1800 ، گنگا رام 1500، سروسز 1300، جنرل 1600، چلڈرن 1600، پی آئی سی 400، لیڈی ایچی سن 300، لیڈی ولنگڈن 400، گلاب دیوی 900، شیخ زید 300 کے قریب مریض روزانہ ایمرجنسی میں آتے ہیں مگر ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں دل کے مریضوں کے لئے پرائمری انجیوپلاسٹی کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔ کالے یرقان ،خون کی الٹیاں کرنے والے مریضوں کے لئے اینڈوسکوپی اور ویڈیو اینڈوسکوپی کی سہولت کا بھی فقدان ہے۔ گردے کے عارضے میں مبتلا مریضوں کے لئے ڈائیلسزکی سہولت دستیاب نہیں، حادثے کا شکار ہونے والے مریضوں کووینٹی لیٹرزدستیاب نہیں ہوتا جبکہ پاگل کتے کے کاٹنے کی ویکیسن کسی بھی ٹیچنگ ہسپتال میں موجود نہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ میںمیں کتے کاٹنے کی ویکسین ہے مگر وہاںمکمل کورس نہیں کروایا جاتا۔ جان بچانے والے ٹیکوں کی عدم فراہمی ایمرجنسی میں ایک بڑا مسئلہ ہے جبکہ ہسپتالوں میں مصنوعی سانس لینے کیلئے جدید آکسیجن سسٹم بھی موجود نہیں۔ سلنڈروں کے ذریعے ہی مصنوعی آکسیجن دی جاتی ہے۔ دوسری طرف ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں سی ٹی سکین کی سہولت بھی موجود نہیں۔ ہر ہسپتال کی ایمرجنسی 100 سے 150 بیڈز پر مشتمل ہے مگر ایک بیڈ پر 4 سے زائد مریض ہوتے ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاہور کے ہسپتالوں میں مریضوں کو اولین ترجیح پر علاج معالجے کی سہولتیں دی جاتی ہیں۔ ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو تمام طبی سہولتیں دی جاتی ہیں۔

ہسپتال نہ بن سکے

ای پیپر-دی نیشن