چوہدری نثار علی خان اور پرویز خٹک کے درمیا ن لڑائی کا ’’پس منظر‘‘
گذشتہ 35 سال سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی سے’’یاد اللہ‘‘ ہے بعض اوقات میں سوچتا ہوں وہ کیا وجوہات ہیں وزیراعظم محمد نواز شریف کی قربت کے خواہشمند یا ان کے سیاسی مخالفین میاں نواز شریف پر برسنے کی بجائے چوہدری نثار علی خان پر اپنا غصہ کیوں نکالتے ہیں؟ میں نے یہ بات محسوس کی کہ میاں نواز شریف سے قربت کے خواہشمند افراد ان سے حسد کی وجہ سے ان کی شخصیت میں نقائص نکالتے رہتے ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان کے سب سے زیادہ قریب ہونے کے باعث اہم فیصلوں میں ان کا عمل دخل ہوتا ہے لہٰذا پارٹی میں کچھ لوگ ان کے بارے میں ’’داستان گوئی‘‘ کرتے رہتے ہیں البتہ سیاسی مخالفین کی طرف سے چوہدری نثار علی خان پر تنقید سمجھ آتی ہے پارلیمنٹ میں وفاقی وزیر داخلہ نثار علی کی نشست وزیر اعظم کے پہلو میں الاٹ کی گئی ہے اس طرح ان کو عملاً سینئر وزیر کا درجہ دے دیا گیا ہے اس لحاظ چوہدری نثار علی خان وزیراعظم نواز شریف کے ’’اوپننگ بیٹسمین‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں وہ پارلیمنٹ ہو یا باہر وہ میاں نواز شریف کا بے جگری سے دفاع کرتے ہیں اور نواز شریف کے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں چوہدری نثار علی خان سیاسی مخالفین کے ادھار چکانے میں دیر نہیں لگاتے اگر کوئی ان پر ذاتی حملہ کرے تو پھر اس کا جواب بھی دئیے بغیر رہ نہیں رہتے لیکن انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں ایک شخصیت کو معاف کر دیا وہ ہے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن اور وزیراعظم نواز شریف کی درخواست کی لاج رکھ لی وہ ہمیشہ ’’ سیاسی قبیلے‘‘ کے لوگوں کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں اور سیاسی مخالفین پر تنقید بھی مہذب انداز میں کرتے ہیں انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر طویل تقاریرکے ریکارڈ قائم کئے ہیں وہ کسی لیڈر پر ذاتی حملہ نہیں کرتے لیکن اگر ان کو کوئی چھیڑے تو پھر اسے چھوڑتے نہیں کچھ ایسا ہی واقعہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور خیبر پی کے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ پیش آیا۔ پرویز خٹک نے ان کے بارے میں طنزاً کہا کہ ’’زمانہ طالب علمی میں چوہدری نثار علی کے پاس ایک پرانی گاڑی ہوتی تھی ‘‘ انہوں نے یہ بات اس انداز میں کہی جیسے وہ ’’خود خاندانی رئیس ہیں اور ان کے مقابلے میں چوہدری نثار علی خان کی مالی حیثیت کم تر ہے‘‘ ان کی یہ بات حقائق کے برعکس ہے چوہدری نثار علی خان زمانہ طالب علمی سے جہاں نئی گاڑیوں کا شوق رکھتے ہیں وہاں 55 نمبر اپنی گاڑی کے لئے حاصل کرتے ہیں دھرنے کے دوران کنٹینر پر کھڑے ہو کر پرویز خٹک پہلے بھی چوہدری نثار علی خان پر اسی نوعیت کے حملے کر رہے تھے چوہدری نثار علی خان پرویز خٹک کا ’’چڑھایا ہوا ادھار‘‘ اتارنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھے گذشتہ ہفتے انہوں نے پارلیمنٹ ہائوس میں اپنے چیمبر میں چیدہ چیدہ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’پی ٹی آئی کے بعض رہنما عمران خان کو خوش کرنے کے لئے کنٹینر پر حکومت کے خلاف تقاریر کرتے اور رات کے اندھیرے میں ان سے ملاقاتیں کر کے وضاحتیں کرتے رہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایسی منافقت سے کونسا انقلاب آئے گا؟ انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال کے تناظر میں تحریک انصاف کی قیادت کی بے بسی پر ترس آرہا ہے جو لوگ کنٹینر پر عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے ہو کر ’’غضب‘‘ کے تیر چلاتے ہیں وہ ایک طرف اپنے ضمیر کی نفی کرتے ہیں اور دوسری طرف تند و تیز تقاریر کرتے ہیں انہوں نے خیبر پی کے کے وزیر اعلیٰ کا نام لئے بغیر اشارۃً کہا کہ ’’خیبر پی کے کے ایک سرکردہ رہنما شام کو اپنی زبان سے آگ کے گولے برساتے ہیں اور پھر رات کے پچھلے پہر ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں انہوں نے کہا عمران خان چاہیں تو ان ملاقاتوں کا ریکارڈ پیش کیا جاسکتا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی غیر رسمی بات چیت کی سیاہی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک بول اٹھے حالانکہ چوہدری نثار علی خان نے دانستہ ان کا نام نہیں لیا پردہ داری کو قائم رکھا جب ان کی بات کا جواب پرویز خٹک نے دیا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘ پرویز خٹک نے چوہدری نثار علی خان سے14 اگست 2014ء سے قبل کی صرف ایک ملاقات کا اعتراف کر لیا جب کہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ پرویز خٹک نے ان سے 14 اگست 201ء سے قبل کئی ملاقاتیں کیں عمران کے قریبی ساتھیوں کی خفیہ ملاقاتوں سے پردہ اٹھا نے سے تحریک انصاف میں کھلبلی مچ گئی تو پرویز خٹک نے ایک ملاقات کا اعتراف کرکے جہاں اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی وہاں انہوں چوہدرری نثار علی خان کی وزیراعظم نواز شریف سے وفاداری کو مشکوک بنانے کی ناکام کوشش کی اور کہا کہ ’’چوہدری نثار علی خان وزیراعظم محمد نواز شریف پر دبائو بڑھانے کے لئے دھرنا جاری رکھنے کے حق میں تھے۔‘‘ اس بارے میں جہاں چوہدری نثار علی خان کا ایک مؤقف ہے۔
لیکن میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ چوہدری نثار علی خان تو دھرنے والوں کو لاہور سے باہر نکلنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں تھے جب ان کو اجازت دے دی گئی تو وہ ان کو جی ٹی روڈ پر روکنا چاہتے تھے لیکن قدم قدم پر انہیں اپنی قیادت کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا وہ بلوائیوں کو کسی صو صورت ’’ریڈ زون‘‘ عبور کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم کے حکم پر کارروائی روک دی لیکن جب 30 اور 31 اگست 2014 کی درمیانی شب ’’بلوائی‘‘ وزیراعظم ہائوس کی جانب بڑھے تو انہوں نے کسی کی پروا کئے بغیر بلوائیوں کو مار بھگایا وہ کس طرح دھرنا جاری رکھنے کی بات کر سکتے تھے۔ راقم السطور نے چوہدری نثار علی خان سے صورتحال سے آگاہی کے لئے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’یوں تو آجکل پاکستان میں عموماً سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیا ہے اور خوف خداکچھ ایسے ختم ہوتا جارہا ہے کہ بنا کسی ثبوت اور تصدیق کہ جس کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے۔ لیکن اس عمومی ماحول کے تناظر میں بھی وزیر اعلیٰ خیبر پی کے نے اپنی شرمندگی و خفت مٹانے کے لیے جس قسم کی غلط بیانی اور دروغ گوئی سے کام لیا ہے اُس نے مجھے سخت حیرانگی کے ساتھ اس سوچ میں مبتلا کر دیا ہے کہ آج کل کے ذمہ دار سمجھے جانے والے لوگ بھی کس قدر مبالغہ آرائی اور غلط بیانی کے دلدل میں دھنس چکے ہیںگو کہ میں نے اپنے بیان میں وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کا نام نہیں لیا لیکن انہوں نے جس قدر پھرتی سے یہ ساری بات اپنے سے منسوب کر لی اس سے صاف لگتا ہے کہ یہ وہ نہیں اُن کا احساس شرمندگی بول رہا تھا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کے اس بیان پر کہ وہ 14 اگست کے بعد چھپ کرمجھ سے نہیں ملے میں حقیقت یہ ہے کہ وہ 14 اگست کے بعد ،جبکہ اُن کا پارلیمنٹ کے باہر دھرنا جاری تھا، مجھے خود اُن کی اپنی درخواست پر 2 مرتبہ پنجاب ہائوس میں ملے اور اس بات کا دستاویزی اور ٹیلی فونک ریکارڈ موجود ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ 14 اگست کے بعد بھی مجھ سے ٹیلی فونک رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے جس کا میں نے کوئی جواب نہ دیا اور اس کا بھی ریکارڈ موجود ہے۔ وہ14اگست سے پہلے مختلف اوقات میں اور اُس کے بعد شام کو دھرنے سے اُٹھ کر میرے پاس آتے رہے وہ گورنمنٹ ہائوس مری میں مجھ سے ملنے آئے اور اُن کی ملاقاتوں کا بنیادی محور یک نکاتی ایجنڈا ہوتا تھا کہ وہ وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی صوبائی اسمبلی تحلیل کریں گے اس سلسلہ میں وہ میری اور مسلم لیگ (ن) کی مدد مانگتے رہے پرویز خٹک کہتے تھے کہ خیبر پی کے اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کی اکثریت استعفے دینے کے حق میں نہیں جماعت اسلامی ان کا ساتھ دے گی مسلم لیگ ارکان کی کمی کو پورا کرے لیکن مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ان کو پذیرائی نہیں ملی تحریک انصاف کے ایک اور لیڈر نے بھی خیبر پی کے میں مسلم لیگی رہنماء سے ملاقات کی۔ پرویز خٹک ہمیشہ سے دھرنے کے بھی خلاف تھے اور اپنی پارٹی کے چند سینئر ارکان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے اور عمران خان کی طرز سیاست کے بارے میں جس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے اس بارے میں کسی مناسب وقت پر تفصیلات بیان کر دوں گا مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ میں اُس شخص کو دھر نا قائم رکھنے کا کہوں جو اُس کے سخت خلاف تھا اور میرے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں ہمہ وقت یہ رٹ لگائے رکھتا تھا کہ میں عمران خان کو قائل کروں کہ دھرنا ، احتجاج اور استعفوں کی سیاست نہ کریں‘‘ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’’دھرنے کے بارے میں میری کیا سوچ تھی یہ وزیراعظم اور میری پارٹی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے۔ اور اس کا برملا اظہار اس وقت بھی سامنے آیا جب 31 اگست کو پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے ڈنڈا بردار اور مسلح حملہ آوروں کو اسلام آباد پولیس نے مار بھگایا اور پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے اس دھرنے کو بغاوت سے منسوب کیا۔ جہاں تک میاں نواز شریف کے حوالہ سے بیان کا تعلق ہے تویہ الزام ہی اس قدر بے بنیاد ، گھٹیا اور لغو ہے کہ میں اس کی تردید کرنا بھی اپنی تضحیک سمجھتا ہوں۔ اگر مجھے پارٹی کی کسی پالیسی سے کبھی بھی کوئی تحفظات ہوں، جو کہ اس 30 سالہ رفاقت میں کئی دفعہ رہے، تو اللہ تعالی نے مجھے یہ توفیق اور قوت دی ہے کہ میں اپنی قیادت کے سامنے بات کرتا ہوں پیٹھ پیچھے نہیں اور یہ بات سبھی بخوبی جانتے ہیں۔ مجھے تعجب اس بات پر بھی ہے کہ میرا تجربہ رہا ہے کہ پشتون بہت کم جھوٹ بولتے ہیں اور اگر مشکل وقت آبھی پڑے تو دوستوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی پر مشکل وقت میں پرویز خٹک نے اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کے لیے پارٹی سے چھپ چھپ کر ہاتھ پائوں مارے اور اب اپنی چوری عیاں ہونے پر وہ اپنی خفت و شرمندگی مٹانے کے لیے بے سروپا اور لغو بے بنیاد الزمات لگانا شروع کر دئیے جو یقیناً یہ ایک پشتون کے شایان شان نہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا ’’میں ایک گناہگار انسان ہوں مگر الحمدللہ میرے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں اور مجھے اپنی عزت نفس اور دیانتداری عزیز ہے۔ انہوں نے سچ اور جھوٹ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے میں پی ٹی آئی کی قیادت کو دعوت دی کہ وہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین جیسی قابل احترام شخصیت کو مقرر کردیں ، وہ ان سے مکمل تعاون کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں تاکہ وہ اس بات کی تحقیق کرکے حقائق سب کے سامنے لائیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں سچ ہے یا وزیر اعلیٰ کے پی کے کی بات حقائق پر مبنی ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ کے پی کے اور اُنکی پارٹی اس پر بھی تیار نہیں ہوتی تو میں یہ مسئلہ عوام پر چھوڑتا ہوں کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ کس کی بات پر یقین کریں گے، ایک ایسے شخص پرجس نے اپنے 30 سالہ سیاسی زندگی میں کبھی پارٹی وفاداری نہیں بدلی ہو یا ایک ایسے شخص پر جو اقتدار کے لالچ میں ہَوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اپنی پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کرتا رہا ہو۔ ہمار ے صفحات پرویز خٹک کے لئے بھی حاضر ہیں وہ اپنا مؤقف پیش کر سکتے ہیں ۔