تشدد کی سیاست سے خانہ جنگی ہو گی، حکومت، تحریک انصاف مفاہمت اپنائیں: زرداری
لاہور/ اسلام آباد (خبرنگار+ خبرنگار خصوصی) سابق صدر مملکت و پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے فیصل آباد میں فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونیوالے پی ٹی آئی کے کارکن کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو جمہوریت کے مفاد میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا تاکہ فساد نہ ہوتا اور ایک شخص جاں بحق نہ ہوتا، دونوں جماعتیں تشدد کی سیاست کی بجائے مفاہمت کی سیاست کا راستہ اختیار کریں کیونکہ تشدد کی سیاست آخرکار ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جائیگی۔ ایران سے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منظور احمد وٹو سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا مفاہمت کی سیاست وقت، ملک اور جمہوریت کے لئے اشد ضروری ہے جبکہ ملک کو سنگین خطرات درپیش ہیں جس سے ہماری آزادی اور طرز زندگی کو خطرہ ہے۔ انہوں نے لاہور میں منعقدہ یومِ تاسیس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس میں ملک کے تمام صوبوں سے پیپلز پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ لاہور میں دوبارہ قیام کے لئے آئیں گے اور پنجاب کے اضلاع کے دورے کر کے پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں سے یونین کونسل کی سطح تک ملاقات کریں گے۔ آصف علی زرداری نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کی اور دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ، خطے اور عالمی امور پر بات چیت کی۔ خبرنگار/ خبرنگار خصوصی کے مطابق تہران میں عسکریت پسندی پر منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور یورو ایشیائی ممالک میں خطرناک حالات و واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا پاکستان دہشتگردی اور انتہاپسندی سے شدید نقصانات کا شکار ہو چکا ہے، دہشتگردی کا شکار ممالک تاریخ سے سبق سیکھیں، پاکستان میں دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ پناہ گزین آئے، منشیات، کلاشنکوف اور انتہاپسندی کی ذہنیت کی معیشت نے جنم لیا۔ ایک دوسرے کو الزام دینے میں کوئی فائدہ نہیں، طویل مدتی حل کی ضرورت ہے، پاکستان میں پائیدار امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوتا۔ فلسطین اور کشمیر کے عوام کی جائز امنگوں کو پورا کئے بغیر امن ہمارے لئے خواب ہی رہے گا۔ ان کا کہنا تھا مغرب سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے غیر ریاستی عناصر کے باعث مشرق وسطیٰ کے قلب میں موجود ریاستوں اور بہت بڑے دارالحکومتوں کی نیندیں حرام ہونا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے اپنی حکومتی دور کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے کہا انہوں نے مشرق وسطیٰ میں جنگوں میں جلدی کرنے والی عالمی کوششوں کی مخالفت کی تھی کیونکہ باغی گروپوں کی کسی بھی قسم کی مدد ریاستوں کو تباہ اور خطرناک قسم کا سکیورٹی خلا پیدا کر سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا انہوں نے اپنے نان نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام میں مداخلت کرنے کے عمل کے حق میں ووٹ نہیں کیا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی ایسے فیصلوں کے نتائج سے آگاہ تھے۔ ان کا کہنا تھا دہشت گردی اور انتہا پسندی موجودہ دور کا سب سے بڑا بنیادی چیلنج ہے اور انہوں نے اسلامی دنیا میں فرقہ واریت کی آگ کے حوالے سے بھی سب کو خبردار کیا۔ انہوں نے حاضرین کو کہا آئو ہم سب مل جائیں اور ایک دوسرے پر الزام لگانے اور انگلیاں اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور ہم کو وقتی نہیں بلکہ طویل مدتی حل تلاش کرنا ہونگے۔