ن لیگ کا گڑھ فیصل آباد گڑھا بن گیا
فیصل آباد میں جو کچھ ہوا ہے تو مجھے 30 نومبر یاد آ گیا ہے جہاں پاکستان کے کئی شہروں سے لوگ اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے تھے اسے جس انداز میں وزیر داخلہ چودھری نثار نے سنبھالا وہ قابل قدر اور حوصلہ افزا ہے۔ انہوں نے کہیں بھی دفاعی طرز عمل اور طرز سیاست اختیار نہیں کیا مگر جارحانہ انداز بھی نہیں اپنایا۔ دفاع اور جارحیت میں توازن کا نام سیاست ہے۔ اسے جمہوری سیاست بھی کہا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے 30 نومبر کو بھی بڑے جارحانہ انداز میں احتجاج کی بات کی تھی بہت شور شرابہ تھا کہ نجانے کیا ہونے والا ہے۔ مگر یوں لگا جیسے یہ دن چودھری نثار سے پوچھ کر گزر رہا تھا سب کچھ بہت احسن طریقے سے اپنے انجام کو پہنچا۔ حیرت ہے کہ اسے عمران نے بھی اپنی کامیابی قرار دیا اور چودھری نثار کے لئے بھی تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے ایک کامیاب دن قرار دیا۔ اس کے لئے نواز شریف نے بھی چودھری نثار علی خان کو مبارکباد دی۔
شیخ رشید نے 30 نومبر کا غصہ اپنی تقریر میں نکالا۔ مگر اب 8 دسمبر کو فیصل آباد میں شیخ صاحب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ وہ جلائو گھیرائو مرجائو اور مار دو کی گردان کر رہے ہیں۔ دونوں پارٹیوں تحریک انصاف اور ن لیگ کی گردن اس میں پھنس گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ بھی چودھری نثار کے پاس ہوتا تو کوئی گڑبڑ نہ ہوتی۔ سامنے رانا ثناء اللہ کو رکھا گیا اور پیچھے عابد شیر علی تھا۔ دونوں میں کوئی رنجش سی تھی۔ 8 دسمبر سے پہلے ان میں صلح کرا دی گئی مگر اس کے اثرات 8 دسمبر کے ہنگامے میں نظر نہ آئے۔ کہیں بھی عابد شیر علی نظر نہ آئے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے تو رانا صاحب بھگتیں۔ انہوں نے بہت کچھ بھگتا اور بھگتایا۔ اگر دھرنا اسلام آباد کی بجائے فیصل آباد میں لگایا گیا ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ 4 مہینوں کا دھرنا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ جب وزیراعظم ہائوس کی طرف تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی ریلی گئی تو پولیس بھی حرکت میں آئی۔ وہاں چودھری نثار علی بذات خود موجود تھے۔ جیسے وہ خود سب کمان اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہوں۔ اس کمان کے ساتھ لگام کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا ہوتا ہے۔ یہ واقعہ بھی گزر گیا اور واقعی کوئی خاص واقعہ نہ ہوا۔ جب عمران خان نے چودھری نثار علی خان کو فیلڈ مارشل کا خطاب دیا تھا سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہماری سیاسی جمہوریت میں ہو سکتا ہے تو سیاسی فیلڈ مارشل بھی ہو سکتا ہے۔ پتہ نہیں چلتا کہ عمران نے یہ بات کس حوالے سے کی ہے۔ تنقید میں تعریف کا اشارہ شاید اسی کو کہتے ہیں۔ اس سے پہلے عمران خان چودھری نثار کو تحریک انصاف میں شامل ہونے کی بار بار درخواست کر چکے ہیں۔ یہ بھی انہوں نے کہا کہ چودھری صاحب کی وہی حیثیت ہو گی جو میری تحریک انصاف میں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ عمران نے چودھری صاحب کو کیا سمجھ کے یہ بات کی ۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو ابھی تک شاہ محمود قریشی یہ مقام حاصل کر چکا ہوتا۔ چودھری صاحب کے لئے قریشی صاحب کی مثال دینے کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ چودھری صاحب شاید واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے وفاداری نہیں بدلی۔ اس حیثیت سے نواز شریف بھی باخبر ہیں۔اس لئے وہ چودھری نثار کی بہت عزت کرتے ہیں اور ان کی رنجشوں کو بھی قبول کرتے ہیں۔ برادرم نواز رضا نے چودھری نثار کو نوازشریف کا اوپننگ بیٹسمین کہا ہے۔ یہ بات کسی نے اس سے پہلے راجہ ظفرالحق کے لئے کہی تھی کہ وہ صدر ضیاء کے اوپننگ بیٹسمین ہیں۔ ان کے بیٹسمین تو نواز شریف بھی تھے مگر ٹیم کی کپتانی نواز شریف کو نصیب ہوئی۔ چودھری نثار بلاشبہ وائس کپتان تو ہیں۔ وہ جس حکومت کے لئے اپوزیشن لیڈر ہوئے اس کے بھی سینئر وزیر تھے۔ دونوں کام بہت دلیری سے نبھائے۔ وہ اب بھی بقول نواز رضا سینئر وزیر ہیں کہ ان کی نشست وزیراعظم کے ساتھ قومی اسمبلی میں ہے۔
کرنل (ر) ضرار نے مجھے کہا کہ میری طرف سے شیخ رشید کو مبارکباد پہنچا دو کہ وہ فیصل آباد میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سیاسی خانہ جنگی تو شروع ہو گئی ہے۔ اب خانہ جنگی بھی ہو گی؟ عمران کے نمبر دو تو شاہ محمود قریشی ہیں مگر وہ شیخ رشید کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ عمران کے پلان سی کو بقول شہباز شریف لوگوں نے سی آف کر دیا ہے مگر فیصل آباد میں ن لیگیوں نے مرچ مصالحہ کچھ تیز کر دیا کہ سب لوگ ’’سی سی‘‘ کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں جو طرز سیاست اور طرز عمل اسلام آباد میں اختیار کیا گیا وہی فیصل آباد میں بھی اختیار کیا جاتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ شریف برادران نے کمال صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا کہ ’’صدر‘‘ زرداری کی مفاہمت پالیسی بھی خیال و خواب لگنے لگی ہے۔ بلکہ آج کل ’’صدر‘‘ زرداری کے بیانات عمران خان کے خلاف مزاحمت سے آگے نکل کر ذاتی مخالفت کے دائرے میں داخل ہو گئے ہیں۔ برادرم انصار عباسی نے لکھا ہے کہ پہلے صرف پی ٹی آئی کا جنون تھا اب نواز لیگ بھی پاگل ہو گئی ہے‘‘ ایک نیم پاگل صورتحال میں فیصل آباد کو بند کرنے میں ن لیگ کا حائل ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو دکانیں بند کرانے کا مظاہرہ کرنے دیا جاتا۔ وہ سڑکوں پر آ کر ٹائر جلا رہے تھے تو اس پر تیل ڈالنا کیا ضروری تھا۔ یہ کام کرنے کا وقت اب گزر چکا ہے۔ کوئی کام قبل از وقت یا بعد از وقت ہو تو وہ ناکام ہوتا ہے۔ بروقت کام ہی برحق اور برمحل ہوتا ہے۔ سیاست میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہے۔ لگتا تھا کہ دو فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ وہ پولیٹیکل پارٹی کے علاوہ سیاسی فوج کی طرح لگ رہے تھے۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ فوج سیاسی پارٹی نہ بنے تو سیاسی پارٹی کو کبھی فوج نہیں بننا چاہئے۔ تصادم اس لئے ہوا کہ ن لیگ نے توازن کا رستہ چھوڑ دیا ہے۔ ورنہ عمران کے دیوانے اور دیوانیاں ٹائر جلا کر نعرے لگا کر دن گزار لیتے۔ ان کے لئے یہ دن گزارنا مشکل ہو جاتا۔ دھینگا مشتی اور کشتی کی کیا ضرورت تھی۔ ایک بندہ پستول چلاتے ہوئے دکھایا گیا جیسے وہ کسی بارات میں آیا ہو اور خوشی منا رہا ہو۔ اب رانا ثناء اللہ تحریک انصاف کے شہید کے لئے کوئی سازش سنائیں گے تو کون اعتبار کرے گا کہ تحریک انصاف والوں نے خود اپنے بندے کو مار ڈالا ہے۔ یہ تو مرنے والے کے لواحقین بھی نہیں مانیں گے۔
کچھ دیر کے بعد ن لیگ کے کارکن بھاگ گئے۔ قتل کے بعد کوئی نظر نہیں آیا۔ رانا ثناء اللہ کے گھر کے باہر تحریک انصاف والوں کا ’’پہرہ‘‘ تھا اور ن لیگ والے کہیں نہ تھے تو اس سے پہلے کارروائی ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ غیر ضروری ردعمل تھا جو فیصل آباد میں دکھایا گیا ہے۔ وہ آخرکار ایک ردی عمل بن گیا۔ فیصل آباد ن لیگ کا گڑھ تھا اب قوم کے لئے ایک گڑھا بن گیا ہے۔ نجانے عمران کے شہر بند کرانے کے پلان سی کے لئے گوجرانوالہ کو کیوں بھلا دیا گیا وہ بھی تو ن لیگ کا گڑھ ہے یہاں خرم دستگیر بھی وہی کرتے جو عابد شیر علی نے کیا تو پھر گوجرانوالہ کا رانا ثناء اللہ کون ہوتا۔ 18 دسمبر کو پورا ملک بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے وہ تو 9 دسمبر کو بھی ہو رہا ہے کہ ہر جگہ مظاہرے ہو رہے ہیں اور یوم سوگ منانے کی تیاری ہو چکی ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ن لیگ عمران خان کو کرنے دے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کی چاہت میں اپنی کوشش شامل نہ کرے تو بہتر ہو گا۔ ویسے ن لیگی قیادت اپنے لئے جو بہتر سمجھتی ہے وہی کرتی ہے۔ تو پھر وہ بھی ہونے والا ہے جس کا انتظار ہے۔ ڈرو اس وقت سے جو آنے والا ہے؟