مذاکرات نواز شریف اور عمران خان خود کریں
تحریک انصاف اور ن لیگ میں مذاکرات کا وہی حال ہوا ہے جو پاکستان اور بھارت میں مذاکرات کا ہوتا ہے۔ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ مذاکرات بھی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ شریک ہوتے ہیں جن کا مسائل کے حل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دونوں فریق اپنی اپنی حکومت کے بتائے ہوئے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے اور بات آگے نہیں بڑھتی۔ وہ لوگ جو پالیسی کے حوالے سے فیصلے کر سکتے ہیں وہ ایک دوسرے سے بات ہی نہیں کرتے۔
بھٹو صاحب اور اندرا گاندھی نے بات کی تھی تو90 ہزار پاکستانی قیدی رہا ہوئے اور بات بن گئی۔ پھر بھٹو اور اندرا گاندھی نے کبھی ملاقات نہیں کی بھٹو انتخابی مہم میں کہتا رہا کہ ہم ایک ہزار سال تک بھارت سے جنگ کریں گے اور اندرا گاندھی کو خطاب کرتے ہوئے بڑھکیں لگاتا رہا۔ اندرا کو مائی کہا اوئے مائی اندرا گاندھی سن لو۔ عمران نے بالکل یہی انداز نواز شریف کے لئے اپنایا ہے۔ اوئے نواز شریف جس کے لئے میں نے کہا کہ عمران اس وقت سے ڈرے جب اسے کہنا پڑے اوئی! نواز شریف۔ کچھ بھارت نواز لوگوں نے بھٹو کے اس خطاب کی تشریح کی کہ مائی کے خطاب کو انگریزی میں پڑھیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اوئے میری اندرا گاندھی۔ بعد میں بھٹو کی پالیسیوں سے یہی لگا جو بھارت کے حوالے سے اس نے اپنائی تھیں۔
میں بھی ایک ہی بار بھارت گیا اور اندرا گاندھی سے ملاقات ہوئی۔ وہ وزیراعظم انڈیا تھی اور اس نے سوتی ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور پائوں میں ہوائی چپل تھی مگر وہ بہت خوبصورت تھی۔ سرخ گلاب کے پھول کی طرح تر و تازہ اور چاک و چوبند۔ وہ بڑی عمر کی عورت تھی مگر کسی طرف سے مائی نہیں لگتی تھی۔ اسے انگریزی میں مائی تو کہا جا سکتا تھا، پنجابی میں نہیں کہا جا سکتا تھا۔ ہماری وزیراعظم بے نظیر بھٹو خاصے بیش بہا کپڑے اور جوتے پہنتی تھیں مگر ان کی شخصیت میں بڑی خوبیاں تھیں۔ ہمیں اس کا دوپٹہ اچھا لگتا تھا خواہ وہ کتنا ہی قیمتی ہوتا۔ بھٹو صاحب نے شلوار قمیص پہن کر اس کمپلیکس کو دور کرایا کہ یہ صرف غریب اور چھوٹے لوگوں کا لباس ہے۔ پھر حکمرانوں اور افسروں نے بھی شلوار قمیص پہنی۔ نواز شریف کی شلوار قمیص اور اس کے اوپر نیلی واسکٹ بہت اچھی لگتی تھی مگر اب وہ اکثر کوٹ پتلون اور ٹائی میں نظر آتے ہیں اور بالکل اچھے نہیں لگتے۔
بھٹو صاحب کے بعد بے نظیر بھٹو نے دوپٹہ متعارف کرایا اور بڑی فیشن ایبل ماڈرن اور ایڈوانس عورتوں نے بھی دوپٹہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اب پھر دوپٹہ غائب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تبدیلی اوپر سے نیچے آتی ہے۔ ایک تبدیلی عمران خان لانا چاہتا ہے اور ناچ گانے کے حوالے سے ساری جھجھک ختم ہو گئی ہے۔ اب کہیں طبلہ بجائو تو ڈانس ہونے لگتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ طبل جنگ بجانے کی بات بھی ہو رہی ہے۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ تحریک انصاف اور ن لیگ میں جو مذاکرات کی بات ہو رہی ہے۔ اسے عمران خان اور نواز شریف کی ملاقات میں تبدیل کیا جائے تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلے گا۔ نواز شریف ہسپتال میں عمران کے پاس جا سکتے ہیں۔ بنی گالہ میں گئے تو اب کنٹینر پر کیوں نہیں جا سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مذاکرات ایک ہی ملاقات میں ایک گھنٹے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
نواز شریف نے اس کے لئے اسحاق ڈار کو چیمپئن بنا دیا ہے۔ انہیں وزیر خزانہ بنانا ہی کافی تھا جس پر مسلسل تنقید ہو رہی ہے۔ لوگ انہیں وزیر کم اور سمدھی صاحب زیادہ کہتے ہیں۔ مذاکرات کے لئے رشتہ دار کے علاوہ بھی کسی پر اعتبار کر لیا جاتا تو اب تک کچھ سے کچھ ہو گیا ہوتا۔
عمران کی طرف سے شاہ محمود قریشی کہاں سے نکل آیا۔ اس کی کوئی کریڈیبلٹی عمران نے نہ چھوڑی کہ مذاکرات میں مصروف شاہ محمود کے لئے کہا کہ تم جو مرضی کرو میں نہیں مانوں گا۔ عمران کو معلوم نہیں کہ شاہ محمود اسے ناکام کرنے آیا ہوا ہے اور شیخ رشید کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ عمران کو ’’کچھ زیادہ کامیاب‘‘ کرایا جائے۔ اس کامیابی کی ابتدا فیصل آباد میں ہو چکی ہے۔ سیاسی خانہ جنگی اور پھر خانہ جنگی؟
مذاکرات کے حوالے سے عمران اگر جاوید ہاشمی کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کرتا اور نواز شریف کی طرف سے چودھری نثار ہوتے تو اب تک مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ چکے ہوتے۔ اب جاوید ہاشمی تو نہیں ہے عمران خود مذاکرات کو سنبھالے اور اس کے ساتھ عبدالعلیم خان اور خورشید محمود قصوری ہوں۔ نواز شریف چودھری نثار کے ساتھ راجہ ظفرالحق کو شامل کر لیں یا اس حوالے سے چودھری نثار سے مشورہ کر لیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ مذاکرات کا کوئی نہ کوئی نیتجہ نکلے گا۔
اس کے علاوہ بھی میرے ذہن میں ایک بات ہے کہ نواز شریف کے لانگ مارچ کے وقت گوجرانوالہ سے ہی جلوس کو واپس جانا پڑا کہ آرمی چیف جنرل کیانی نے مداخلت کی۔ ان کی بات ’’صدر‘‘ زرداری نے بھی مانی اور نواز شریف نے بھی مان لی اور جھگڑا ختم ہو گیا۔ جب جنرل راحیل شریف کو ملنے کے لئے عمران اور قادری صاحب گئے تھے تو بات بن جاتی مگر دوسرے دن نواز شریف نے اور ان کے حمایتی سیاستدانوں نے تقریریں کر کے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ ایمپائر کو انگلی اٹھانا پڑے گی تو جھگڑا ختم ہو گا۔ ورنہ ایک کہتا ہے کہ میں ایک بال سے دو وکٹیں لوں گا جو کھیل کے قوانین کے خلاف ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔ اس طرح استعفیٰ کا مطالبہ غلط ہے۔ اس میں شہباز شریف کی بات بہت مزیدار ہے کہ عمران خان نو بال پر وکٹیں مانگتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب کوئی رن آئوٹ ہو جائے تاکہ وکٹوں کا معاملہ ہی نہ رہے مگر ایمپائر کو اس کے لئے بھی انگلی اٹھانا پڑے گی۔ ہم یہ تو سمجھتے ہیں کہ جنرل راحیل براہ راست نہ آئیں۔ مارشل لا نہیں لگنا چاہئے جبکہ اس کے لئے صورت حال بنائی جا رہی ہے۔ اور جنرل صاحب جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ مگر جنرل صاحب کوئی کردار تو ادا کریں۔ وہ عدلیہ کو بھی اپنی مدد کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔
اس حوالے سے سراج الحق نے بھی کوشش کی ہے۔ انہوں نے بیانات بہت خوب دیے ہیں۔ انہوں نے ایک قومی کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ’’صدر‘‘ زرداری دو دفعہ منصورہ میں جا کے ان سے ملے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے اس میدان میں رحمان ملک کو بھی داخل کیا ہوا ہے۔ رحمان ملک کا مذاکرات سے کیا تعلق ہے۔ ان کے گھر میں بھی کئی ملاقاتیں سراج الحق کی ہوئی ہیں ملک صاحب صورتحال کو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا بگاڑنے کی سازش کر رہے ہیں۔ انہیں کراچی ائر پورٹ پر دیر سے آنے کی وجہ سے جہاز میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا مگر وہ مذاکرات وغیرہ کے خیمے میں پورے کے پورے داخل ہو چکے ہیں اور سراج الحق باہر ہیں۔ ملک صاحب سراج صاحب سے ملنے کے لئے خیمے سے باہر آ جاتے ہیں۔ اب خیمہ انہوں نے اپنے شاندار گھر میں لگا لیا ہے۔
’’صدر‘‘ زرداری اور بلاول عمران خان کے خلاف خاصے بیان دے رہے ہیں مگر رحمان ملک صلح کرانے میں مگن ہیں۔ انہیں اب پہلے عمران اور ’’صدر‘‘ زرداری میں صلح کرانا ہو گی۔ کوئی تو بتائے کہ چکر کیا ہے؟ ’’صدر‘‘ زرداری ملک صاحب سے ڈرتے ہیں مگر ملک صاحب پھر بھی ان کی سیاست کو سمجھ نہیں سکتے۔ سراج الحق بھی کچھ محتاط رہیں۔ میرے اس کالم کی ایک ہی بات یہ ہے کہ نواز شریف اور عمران کو خود ہی بات چیت کرنا چاہئے۔ چودھری نثار سے بھی مدد لی جائے تو نتائج دونوں کے حق میں ہوں گے۔