مذاکرات ہی حل ہے
عالمی بنک نے رواں سال میں پاکستانی معیشت کے بارے میں جو رپورٹ دی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اس سال اگست سے پہلے پاکستان کی معیشت ٹھیک چل رہی تھی۔ پاکستان نے اصلاحات کا جو پروگرام شروع کیا تھا اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے تھے۔ معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ ہو رہا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے تھے اور ادائیگیوں کا توازن بہتر ہو رہا تھا۔ افراط زر ایک ہندسہ تک محدود ہو گیا تھا‘ لیکن پھر اگست میں لانگ مارچ اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے باعث پاکستانی معیشت پر مضر اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے۔
حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا کہ دھرنوں کے باعث معیشت بگڑ رہی ہے۔ سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔ اگست میں دوست ملک چین کے صدر کا دورہ پاکستان ہونا تھا لیکن یہ دورہ دھرنوں کی وجہ سے مؤخر کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے پاکستانی عوام کو یہی امید دلائی تھی کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک کی معیشت کو بہتر کرے گی۔ زرداری دور میں لوٹ کھسوٹ اور نااہلی کے باعث ملک کا جو معاشی نقصان ہوا تھا اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ گزشتہ سال اور اس سال کے آغاز میں پاکستانی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہو رہے تھے۔ یہ کوشش ہو رہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف مئی 2013 ء کے انتخابات میں دھاندلی کے جو الزامات لگا رہی ہے‘ ان الزامات کو غلط ثابت کرنے اور انتخابات کی کریڈیبلٹی کو ثابت کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے بنی گالہ میں جب عمران خان سے ملاقات کی تھی تو یہی لگ رہا تھا کہ تحریک انصاف اور حکومت میں کوئی نہ کوئی مفاہمت ہو گئی ہے۔ عمران خان نے جب 14 اگست کو لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے اور اگلا لائحہ عمل دینے کا اعلان کیا تو حکومت اور شاید دوسری سیاسی جماعتوں کو احساس نہیں تھا کہ عمران خان کا لانگ مارچ ‘ دھرنا اور احتجاج کیا رخ اختیار کرے گا۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے حکومت کے اندازوں سے کہیں زیادہ طوالت اختیار کر گئے اور ان میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوتا گیا۔ عمران خان کے احتجاج کا دورانیہ تو اب 100 دن سے بھی بڑھ گیا ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا جو عمل شروع ہوا تھا وہ بھی ادھورا رہ گیا۔ سیاسی جرگہ میں شامل لیڈروں نے بھی بڑی کوشش کی کہ مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے لیکن ان کی کوششیں بھی رائیگاں گئیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کے دھرنے کے شرکاء کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ عمران خان کی احتجاجی تحریک اپنی موت آپ مر جائے گی لیکن یہ اندازے بھی درست ثابت نہیں ہوئے۔ مارچ1977 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ماتحت کرائے گئے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور الزام لگایا کہ 7 مارچ 1977 ء کو ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ‘ تو قومی اتحاد نے احتجاجی تحریک شروع کر دی۔ شروع میں قومی اتحاد کے احتجاجی جلوسوں میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد کم تھی‘ بھٹو صاحب اور ان کے رفقاء کا خیال تھا کہ یہ تحریک کمزور پڑ جائے گی‘ لیکن یہ احتجاج اِس قدر شدت اختیار کر گیا کہ بھٹو صاحب کو قومی اتحاد کے لیڈروں سے مذاکرات کرنا پڑے۔ احتجاجی تحریک کے دباؤ کے نتیجے میں بھٹو صاحب نئے انتخابات کرانے پر رضامند ہوئے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ موجودہ حکومت کو پاکستان کے ماضی کے تجربات کی روشنی میں تحریک انصاف کے احتجاج کو ختم کرانے کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کر کے اس مسئلہ کو جلد حل کر لینا چاہئیے۔ تحریک انصاف کے پلان سی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اب شاید عمران خان کی تحریک پرامن نہ رہے اور حالات تشدد کی طرف چلے جائیں۔ اگلے چار ماہ میں اس حکومت کے اقتدار کے دو سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان دو سالوں میں معیشت کی بہتری کے لئے جو اقدامات کئے گئے ان سے جو کچھ حاصل کیا گیا تھا وہ بھی سیاسی بے چینی کی نذر ہو سکتا ہے۔ حکومت کو اپنے منشور اور پروگرام پر عملدرآمد کے لئے امن اور استحکام کی ضرورت ہے۔ یہ امن اور استحکام مذاکرات سے اور مفاہمت سے حاصل ہو سکتا ہے۔ عمران خان وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبہ سے بھی دستبردار ہو چکے ہیں۔ اب وہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات چاہتے ہیں۔ اب بات چیت کے لئے بہتر ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پہل حکومت کو کرنا چاہئیے۔