الطاف حسین کا سیالکوٹ کے عہدیدار کے قتل پر وزیراعظم اور پنجاب کے کسی بھی وزیر کو سندھ میں داخل نہ ہونے دینے کا اعلان
قومی قائد کی حیثیت سے علاقائی تعصب ابھارنا انکے شایان شان نہیں
ایم کیو ایم (متحدہ) کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ پنجاب میں سیاسی کارکنوں کے قتل‘ جرائم اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات حکومت پنجاب کی کارکردگی پر ایک سوال ہیں۔ اگرپنجاب میں ہمارے کارکنوں کا قتل نہ روکا گیا تو وزیراعظم سمیت پنجاب کا کوئی بھی وزیر سندھ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ گزشتہ روز ایم کیو ایم سیالکوٹ کے نائب صدر بائوانور کے سانحۂ قتل پر لندن سے جاری کئے گئے اپنے بیان اور متحدہ کے نائن زیرو پر جمع ہونیوالے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین نے کہا کہ ہمارے کارکنوں کی تشدد زدہ نعشیں سڑکوں پر پھینک کر ہمیں صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ انہوں نے بائوانور کے قتل پر متحدہ کے کارکنوں کو جلوس نکالنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کارکن پنجاب حکومت کیخلاف احتجاج کریں اور ’’گونوازگو‘‘ کے نعرے لگائے جائیں۔ انہوں نے کہا‘ اگر ہمیں ختم کروگے تو عوام ایسی کارروائی کرینگے جس سے معلوم نہیں ہوگا کہ کون کہاں سے آیا‘ ہم پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ہیں‘ ہم سے ایسا سلوک مت کرو‘ پاکستان نہیں رہے گا تو شان و شوکت بھی نہیں رہے گی۔ انہوں نے میڈیا پر بھی سخت خفگی کا اظہار کیا اور کہا کہ کل سے آج تک ہر چینل پر پی ٹی آئی کے کارکن حق نواز کی موت پر تبصرے ہو رہے ہیں مگر ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل پر کوئی بات نہیں کرتا۔ میڈیا والو سن لو! جس چینل نے کوریج نہ دی‘ عوام اس کا بیڑہ غرق کر دینگے۔ انہوں نے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی سے بھی سیالکوٹ میں متحدہ کے عہدیدار کے قتل پر بروقت احتجاج نہ کرنے پر خفگی کا اظہار کیا اور کہا کہ رابطہ کمیٹی نے مایوس کیا ہے‘ انکے بقول رابطہ کمیٹی نے پسند نہ پسند کی بنیاد پر گروپ بنا رکھے ہیں۔ ان لوگوں نے اربوں‘ کھربوں بنالئے‘ گرائونڈ‘ گلیاں اور دریاں تک بیچ ڈالیں مگر کارکنوں کی شہادت پر رابطہ کمیٹی نے احتجاج کیا نہ ہڑتال کی کال دی۔
فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے کارکن حق نواز کے قتل کی طرح سیالکوٹ میں متحدہ کے مقامی عہدیدار کے قتل کا سانحہ بھی انتہائی افسوسناک ہے جس کے پس پردہ محرکات ابھی تک سامنے نہیں آسکے اور یہ پولیس تفتیش کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ مقتول بائوانور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں‘ ایم کیو ایم سے تعلق کے ناطے انکی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے یا وہ کسی ذاتی دشمنی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے واقعہ کی انکوائری اور ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے مقتول کے لواحقین کیلئے 20 لاکھ روپے کی امداد‘ انکے بچوں کی مفت تعلیم اور اہلخانہ کو علاج کی مفت سہولتیں فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو فون کرکے بائوانور کے سانحہ قتل پر انکے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ حملہ آور قانون کی گرفت سے بچ نہیں پائیں گے۔ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال اور جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر الطاف حسین کا تشویش کا اظہار بالکل بجا ہے تاہم اس وقت پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور بالخصوص کراچی میں تو گزشتہ سات آٹھ سال سے تسلسل کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور سرکاری و نجی املاک پر قبضے جیسے قبیح جرائم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عرصہ میں ایم کیو ایم خود بھی برسر اقتدار رہی ہے اور اس وقت بھی گورنر سندھ کے حوالے سے سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کا عمل دخل برقرار ہے۔ مگر کراچی میں گزشتہ سوا سال سے جاری ٹارگٹڈ اپریشن کے باوجود امن و امان کی صورتحال میں سدھار نہیں آسکا۔ اگر گزشتہ آٹھ سال کے دوران کراچی میں ہونیوالی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بیسیوں افراد ایسے شامل ہونگے جو پنجاب سے کراچی میں آباد ہوئے اور انہیں ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔ یہی معاملہ کراچی کے پختون آباد کاروں کا ہے۔ مگر کیا ٹارگٹ کلنگ کی ایسی وارداتوں پر کبھی ایم کیو ایم سے اشتراک والی حکومت سندھ کو باور کرایا گیا کہ اسکے کسی وزیر کو پنجاب میں داخل نہیں ہونے دیا جائیگا۔ اس تناظر میں الطاف حسین نے لندن سے اپنے ٹیلی فونک خطاب کے دوران جس لب و لہجے میں بات کی‘ ایک قومی قائد کی حیثیت سے یہ ہرگز انکے شایان شان نہیں ہے۔ انہوں نے دوران تقریر اس میڈیا کو بھی اپنی کرم فرمائی کی زد میں لانے سے نہیں بخشا جو مسلسل تین گھنٹے سے انکی تقریر براہ راست نشر کررہا تھا جبکہ اس دوران خبروں کے بلیٹن بھی انکی تقریر کی نذر ہو گئے۔ اسکے باوجود الطاف حسین کی میڈیا کو یہ دھمکی انتہائی افسوسناک ہے کہ اس نے ہمیں کوریج نہ دی تو عوام اس کا بیڑہ غرق کر دینگے۔ اگر یہ ان کا پالیسی بیان ہے تو یہ میڈیا کی آزادی پر حملے کے مترادف ہے۔ اگر انہیں اپنی سیاسی آزادیوں اور حقوق کا احساس ہے تو انہیں دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کا بھی احساس کرنا چاہیے۔ بالخصوص میڈیا کی جو پہلے ہی ہر ایشو پر انہیں بھرپور کوریج دے رہا ہے جبکہ پنجاب میں ایک کارکن کے قتل پر جس کے پس پردہ محرکات بھی ابھی سامنے نہیں آئے‘ دھمکی آمیز لہجے میں یہ باور کرانا کہ وزیراعظم سمیت پنجاب کے کسی وزیر کو سندھ میں داخل نہیں ہونے دیا جائیگا‘ جہاں بلاجواز ہے‘ وہیں علاقائی تعصب کو فروغ دینے کے بھی زمرے میں آتا ہے۔ انہیں یہ حقیقت بھی بہرصورت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان ہجرت کرنے کے مراحل میں سب سے زیادہ جانی اور مالی قربانیاں خطۂ پنجاب کے لوگوں نے دی تھیں جنہوں نے اپنے گھر بار لٹاکر‘ اپنے پیاروں کی خون میں لت پت لاشیں چھوڑ کر اور مائوں بہنوں کی عصمتوں کی قربانیاں دے کر پاکستان ہجرت کی تو یہاں بڑے بڑے کلیم بھی داخل نہیں کرائے تھے اور اب وہ اور انکی اولادیں خود کو مہاجر بھی نہیں کہلاتیں‘ جبکہ اسکے عشرعشیر ہجرت کرکے کراچی آنیوالوں نے اپنی ہجرت کے جو ثمرات حاصل کئے ان کا محترم الطاف حسین کی زبان سے ہی اعتراف ہو رہا ہے کہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے لوگوں نے اربوں کھربوں کمالئے ہیں اور گرائونڈ‘ گلیاں اور دریاں تک بیچ کھائی ہیں چنانچہ ان حقائق کو پیش نظر رکھ کر انہیں پاکستان میں اپنے حقوق سے محرومی کا تو ہرگز گلہ نہیں کرنا چاہیے جبکہ پنجاب میں بالخصوص چولستان‘ سرائیکی بیلٹ اور دوسرے پسماندہ علاقوں میں احساس محرومی کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ چاہیے تو یہ کہ بلاتخصیص ملک کے عوام کا احساس محرومی ختم کرنے کی جدوجہد کی جائے اور اپنے اقتدار کے دوران اس کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھائے جائیں لیکن علاقے کی بنیاد پر احساس محرومی کی بات کی جائیگی تو اس سے ملک میں مزید انتشار اور نفاق پیدا ہوگا جو ملک کے استحکام کیلئے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ دشمن کی سازشوں میں گھرا وطن عزیز اس وقت انتشار اور نفاق کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر الطاف حسین کا ایجنڈا کچھ اور ہے تو یہ الگ بات ہے ورنہ ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے انہیں علاقائی تعصب سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے اور ملکی و قومی استحکام کی سیاست کو فروغ دینا چاہیے جس کیلئے منافرت کے بجائے اتحاد و یکجہتی کی فضا بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
الطاف حسین لندن سے ٹیلی فونک خطاب کے دوران جوشِ جذبات میں بعض ایسی متنازعہ باتیں بھی کرجاتے ہیں جو حقائق کے بھی برعکس ہوتی ہیں اور انکی سیاست کے حوالے سے پریشان کن بھی۔ گزشتہ روز بھی انہوں نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں وطن واپس آئوں تو عوام کے سامنے مجھے شہید کر دینا‘ انکی اس بات سے بادی النظر میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے جیسے متذکرہ ایجنسیاں انکی جان کے درپے ہیں اور انہیں ملک واپس نہیں آنے دینا چاہتیں حالانکہ وہ خود برطانوی شہریت حاصل کرکے وہاں اپنی اختیار کردہ جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بطور قومی لیڈر ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ملک واپس آکر قوم کی قیادت کریں اور ملک کو دہشت گردی کے چنگل سے نجات دلائیں‘ اسے امن و آشتی کا گہوارا بنائیں اور بانیان پاکستان کی اولاد ہونے کا حق ادا کریں۔ متنازعہ بیانات اور دھمکی آمیز لہجہ انکے قومی قائد کے تشخص سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔