• news

دو ٹوک پولیس افسر بے دریغ آدمی

اپنی کتاب کا نام ”دو ٹوک باتیں“ ذوالفقار چیمہ نے رکھا ہے۔ ان کی شخصیت بھی ایسی ہے وہ دوٹوک بات کرتے ہیں اور دو ٹوک فیصلے کرتے ہیں۔ اگر یہ رویہ ہمارے ہاں پیدا ہو جائے تو کسی روک ٹوک کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ذوالفقار چیمہ جیسے پولیس افسر برسوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ جملہ میں نے پاکستانی پولیس کی تاریخ کے حوالے سے لکھا ہے۔ مثال کے طور پر بھی ایسا آدمی نہیں ملتا۔ ہماری پولیس میں اچھے پولیس افسر بھی تھے اور ہیں مگر چیمہ صاحب جیسا کوئی نہیں ہے۔ ان کے لئے یہ مصرعہ کتنا برحق اور برمحل ہے کہ وہ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ اس داستان کے کئی عنوان بنتے ہیں۔ ہر عنوان سے ایک الگ داستان لکھی جا سکی ہے۔
گوجرانوالہ کی یاد سے دل آباد ہوتا ہے۔ جب وہاں ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ آر پی او تھے۔ کیا اتنا دلیر دیانتدار آدمی ہماری پولیس میں ہے بلکہ تھا کہ وہ 31 دسمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور افسوس یہ ہے کہ کسی حکومت نے ان سے وہ کام نہیں لیا جو لیا جانا چاہئے تھا۔ لیا جا سکتا تھا؟ وہ بہت اہل آدمی ہیں اور اہل دل بھی ہیں۔ حیرت ہے کہ کسی پولیس کے آدمی کے لئے خواتین و حضرات اور بچوں کے لبوں پر دعائیں تھیں مگر ہماری دعائیں ہی قبول نہیں ہوتیں۔ ہماری بددعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ بددعائیں حکمرانوں کے لئے اور افسروں کے لئے ہوتی ہیں مگر کسی پولیس افسر کے لئے دعائیں سنائی دیں تو سماعتوں میں خوشبو گھل جاتی ہے اور حیرتیں چمک اٹھتی ہیں۔
مجھے وردی میں ملبوس لوگ اچھے لگتے ہیں۔ میرا ابا پولیس میں تھا۔ اور میں نے اتنے ذوق و شوق والا دردمند اور دوستدار آدمی نہیں دیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ مظفر گڑھ کے تھانہ خان گڑھ میں کہیں کوئی بہت خوبصورت جوان قتل ہو گیا۔ ابا اپنی پولیس ٹیم کے ساتھ مقتول کے گھر پہنچے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ویران اور اداس گھر میں ایک بوڑھی عورت اپنے جوان بیٹے کے لئے رو رہی تھی۔ ابا صاف شفاف وردی کے ساتھ اس دکھی بڑھیا کے سامنے زمین پر بیٹھ گئے اور زار و قطار رونے لگے۔ سب لوگ اور ابا کے ساتھی پولیس والے حیران رہ گئے۔ مجھے تب ابا وردی میں اور بھی خوبصورت لگے۔ اب مجھے وردی والے لوگ اور اچھے لگتے ہیں۔ کاش وہ اچھے بھی ہو جائیں اس کے بعد مجھے میرے دوست برادرم ذوالفقار چیمہ وردی میں اتنے اچھے لگے کہ مجھے اپنا ابا یاد آ گیا۔ میں نے ایک دن ابا سے پوچھا کہ ایک اچھے پولیس افسر کی کیا پہچان ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ظلم نہ کرے اور ظلم نہ ہونے دے۔ شکر ہے کہ اپنی کتاب کے ٹائٹل پر چیمہ صاحب کی تصویر وردی میں ہے۔ انہوں نے وردی کی عزت اور شان میں اضافہ کیا۔ کوئی داغ ان کی وردی پر نہیں ہے۔ وردی والے شخص کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔
مجھے میرے آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمد کی حدیث یاد آ گئی۔ انہوں نے فرمایا ”تم مظلوم کی مدد کرو اور ظالم کی مدد بھی کرو۔“ صحابہ نے پوچھا کہ ظالم کی مدد کس طرح کی جائے۔ آپ نے فرمایا ظالم کو ظلم کرنے سے روک دو۔ چیمہ صاحب ایسے پولیس افسر ہیں اور تھے کہ انہوں نے مظلوموں کی مدد کی کہ انہیں بے خوف کر دیا۔ اور ظالموں کو کیفر کردار تک بھی پہنچایا۔ آج کے زمانے میں ظالموں کو عبرت کا نشان بنانا ضروری ہے۔ چیمہ صاحب نے یہی معرکہ آرائی کی ہے۔ حکمرانوں سے اور خاص طور پر زبردست اور سخت گیر منتظم شہباز شریف سے یہی گذارش ہے۔ وہ مظلوموں کی دلجوئی کرتے ہیں مگر ظالموں کی سرکوبی ابھی نہیں ہوئی۔
یہ تو ماننے والی بات نہیں کہ پولیس والا ہو اور وہ رشوت نہ لے۔ رشوت لینے والے کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے لئے یہ گناہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ گناہ بے لذت ہے۔ ہمیں نیکی کرنا بھول گیا ہے اور ہم گناہ بھی اس طرح نہیں کرتے جس طرح گناہ کرنے کا حق ہے۔ ذوالفقار چیمہ نے شادی ہی نہیں کی۔ نہ بچے ہوں گے اور نہ رشوت لینے کے لئے کوئی حسرت رہے گی۔ ایک خاتون نے اپنے شوہر کے ظلم سے تنگ آ کر بددعا کی اللہ تجھے پولیس والوں کے حوالے کرے۔ تھانہ میں کوئی مدعی بن کے جائے یا مدعا علیہ ہو، دونوں پولیس والوں کے غیض و غضب کا شکار بنتے ہیں۔
جو پولیس افسر زندگی کی ٹریفک ہموار اور خوشگوار کر سکتا تھا اسے اپنی ملازمت کے آخری دنوں میں آئی جی موٹر وے لگا دیا گیا۔ موٹر وے کی ٹریفک پہلے ہی بہتر ہے۔ ذوالفقار چیمہ نے اسے ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ عمران خان بھی موٹر وے کے لئے تعریفی کلمات کہنے پر مجبور ہو گیا۔ موٹر وے پر جاتے ہی ہر کوئی قانون کی پابندی کرنے لگ جاتا ہے۔ اور پولیس والے بھی سیدھے ہو جاتے ہیں۔ اس کے سامنے اب یہ مثال بے معنی ہے کہ باہر کے ملکوں میں جاتے ہی اکثر پاکستانی بہترین شہری بن جاتے ہیں۔ بالکل موٹر وے کی طرح پولیس والے بھی چیمہ صاحب کے ماتحت ہو کر اچھے بن جاتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں مجرم بھی ”محرم“ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ کہیں بھی چیمہ صاحب کی موجودگی ایک بہترین آسودگی کا باعث بنتی ہے۔ وہ محکمہ پولیس کی موٹر وے کی طرح ہیں جہاں قانون کی پاسداری کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور فطری ہو جاتا ہے۔
نواز شریف نے انہیں آئی جی سندھ لگانے کا فیصلہ کیا تھا مگر ایم کیو ایم اورپیپلز پارٹی رکاوٹ بن گئی۔ خدا کی قسم وہ چند ماہ میں سندھ کو ایک پرسکون وادی بنا دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کا صفایا ہو جاتا ہے۔ مگر سندھ کے حکمران اور سیاستدان کیوں یہ نہیں چاہتے۔ وہ ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری دہشت گردی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ان کے اپنے بندے اس صورتحال میں خوب کام کر رہے ہیں۔ پولیس کو بھی انہوں نے اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے۔ پولیس گردی دہشت گردی سے بھی بڑھ گئی ہے۔ سب سے پہلے وہاں پولیس ایک آزاد انتظامیہ ہوتی۔ ہر طرح کی مداخلت سے پاک ہوتی۔ کوئی ناجائز محکمہ تسلیم نہ کیا جاتا تو پھر وہ حکمران اور افسران کیا کرتے جنہیں پولیس کو استعمال کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ برے پولیس والے بھی چیمہ صاحب سے ڈرتے ہیں مگر میں پریشان ہوں کہ نواز شریف نے چیمہ صاحب کو آئی جی پنجاب کیوں نہیں بنایا۔ اس طرح پنجاب تو ٹھیک ہو جاتا۔ جرم اور ظلم سے پاک ہو جاتا۔ اب تک تھانہ کلچر تو تبدیل نہیں ہوا مگر ناجائز احکامات نہ ماننے کی صورت میں پولیس افسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ذوالفقار چیمہ صحیح معنوں میں بابائے قوم قائداعظم کا سپاہی ہے۔ ان کے ایک باب کا عنوان قائداعظم کے فرمان کے حوالے سے ہے۔ بابا نے چیمہ صاحب سے پوچھا میرے پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے قربانی دو گے۔ چیمہ صاحب نے بابا کی قبر کو سیلوٹ کیا اور کہا ”یس سر آئی ول ڈو اٹ“ مگر اس کے بعد میرے ذہن میں آیا کہ اب کوئی حکمران کسی غلط اور ناجائز کام کے لئے حکم دے تو چیمہ صاحب کہیں گے ”نو سر آئی ول ڈونٹ ڈو اٹ“۔
چیمہ صاحب پولیس افسر نہ ہوتے تو پروفیسر ہوتے۔ وہ کالم نگار بن گئے۔ ان کی کالم نگاری سالم نگاری ہے۔ یہاں بھی حق کے فروغ کے لئے انہوں نے قلم کو علم بنایا ہے۔ یہ جھنڈا ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس جھنڈے کو بلند رکھنے والے سربلند ہوتے ہیں۔ ان کی تقریر ان کی تحریر کی طرح خوشنوا تاثیر سے لبالب بھری ہوئی ہے۔ اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے برادرم شہباز شیخ نے ان کی شگفتہ اور معنی آفریں تقریروں سے خواتین و حضرات کو بے قرار اور سرشار ہونے کا موقع فراہم کیا۔ چیمہ جتنے معزز اور ممتاز خطیب ہیں اتنے ہی ادیب ہیں۔ وہ ہماری برادری میں آئے ہیں اور یہ اعزاز کی بات ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر مجید نظامی کے لئے بہت بڑا کالم لکھا۔ ”سب سے بڑا پاکستانی“۔ ذوالفقار چیمہ کے لئے ایک زبردست کالم ہمارے چیف نیوز ایڈیٹر دلاور چودھری نے لکھا ہے۔
کتاب کے آغاز میں اپنی عظیم ماں کے لئے ان کی تحریر کی تاثیر میں ہر شخص اپنی ماں کی یاد سے بھر گیا ہے۔ ماں کے قدموں میں بیٹھ کر جو اسلوب بیان انہوں نے اپنایا ہے تو یقین آ گیا ہے کہ وہ واقعی چیمہ صاحب جیسے بیٹے کی ماں تھیں۔ ماں بیٹے کو سلام۔
ھن تے کجھ نہیں نظری آندا
ہور اک دیوا بال نی مائے

ای پیپر-دی نیشن