موت کی حقیقت میں زندگی کا راز ہے؟
ہر شخص انشورنس چاہتا ہے۔ اس کے لئے کوئی یقین دہانی ضروری ہے۔ لوگ تو سیاستدانوں کی یقین دہانیوں پر بھی یقین کر لیتے ہیں۔ پھر آئندہ الیکشن تک روتے رہتے ہیں۔ انتخابی مہم میں سیاستدانوں کی جھوٹی تقریروں پر پھر یقین کر لیتے ہیں مگر تقریر سے تقدیر نہیں بدلتی۔ یہاں لوگوں کو نہ جینے دیا جاتا ہے اور نہ مرنے دیا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا ہو گا اور اپنے پیچھے زندہ رہ جانے والوں کا کیا ہو گا۔ زندگی میں بھی کوئی خیر کی خبر نہیں ہے اور موت کے بعد یہ فکر ساتھ جاتی ہے کہ میرے بعد میرے اپنوں کے ساتھ کیا ہو گا۔ کہیں سے یقین کا کوئی پیغام نہیں آتا۔ میں جب اس دنیا میں نہیں رہوں گا تو وہ لوگ جو ہر برے وقت میں میری طرف دیکھتے ہیں کس کی طرف دیکھیں گے؟ شاید یہی آسمان کی طرف دیکھنے والوں کا دکھ ہے۔ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کی ایک نظم کا عنوان یہی ہے۔ نیچے جو نظم ہے وہ بھی ایک مصرعے پر مشتمل ہے۔ ’’بندہ کلا رہ جاندا اے‘‘۔ اکیلے رہ جانے والوں کو اس احساس سے چھٹکارہ دلانے کے لئے بھی کسی انشورنس کی ضرورت ہے۔ انہیں دلاسہ دیا جائے۔ ان کی دلجوئی کی جائے۔ انہیں محبت دی جائے اور ان کی ضرورتوں کا خیال بھی رکھا جائے۔ انہیں بے آسرا ہونے کا احساس نہ رہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو بآسانی موت کی دہلیز تک لے جائیں۔ جیتے جی مر نہ جائیں۔ نجانے شاعر نے کس خیال سے یہ شعر لکھا تھا:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
مرنے والوں کو اپنی فکر اتنی نہیں ہوتی جتنی اپنے پیچھے زندہ رہ جانے والوں کے لئے ہوتی ہے اور یہ فکر بھی اسے اپنی زندگی میں ہوتی ہے۔ مریض کے لواحقین اور مرحوم کے پسماندگان زیادہ تکلیف میں ہوتے ہیں۔ کسی کے مرنے کے بعد بھی جو رسومات اور معاملات ہوتے ہیں ان کا تعلق بھی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم موت کو زندگی کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔
ایک دوست اچانک فوت ہو گیا تو مجھے فکر ہوئی کہ اب اس کے گھر والوں کا کیا بنے گا۔ میں نے جب چند روز کے بعد بھابی صاحبہ کی طرف فون کیا اور بچوں کی خیریت دریافت کی اور پوچھا کہ مرنے والے نے چند دن پہلے بڑے بیٹے کی کالج فیس کے لیے پریشانی کا اظہار کیا تھا تو اس صابر شاکر خاتون نے کہا کہ وہ انتظام ہو گیا ہے۔ میں نے پچاس ہزار کی کمیٹی ڈالی ہوئی تھی وہ کل ہی مجھے مل گئی ہے۔ اب کوئی پریشانی نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ خاتون کتنی عقلمند ہے اور آنے والے دنوں کے لئے دھیان رکھتی ہے۔ ورنہ کون کس کی کتنی مدد کر سکتا ہے؟ مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ مگر دنیا میں نے انسانوں کو انسانوں کی مدد پر لگا دیا ہے۔ انسانوں نے کئی ادارے اور ارادے بنائے ہیں۔
یہ کمیٹی ڈالنے والے اپنے طور پر انشورنس کے قواعد و ضوابط نہیں چاہتے مگر اچھی طرح تمام معاملات کو نبھاتے ہیں۔ بیوی کو بھی یہ شوق ہے اور اب یہ شوق فراواں میں بدل چکا ہے کہ وہ کمیٹی کی ادائیگی مجھ سے کرواتی ہے اور جب کمیٹی نکلتی ہے تو سب رقم لے کے شاپنگ پر چلی جاتی ہے۔ واپسی پر اس سے کوئی ایسا ویسا سوال کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور بات اگلی کمیٹی تک چلی جاتی ہے۔
فلاحی ریاستوں میں حکومت اپنے لوگوں کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ کئی ادارے اس خدمت کے لئے بنائے جاتے ہیں جو ضرورت مندوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں نہ مرنے والوں کی خبر لی جاتی ہے اور نہ زندہ لوگوں سے کوئی رابطہ ہوتا ہے۔ فلاحی ریاستوں میں تو حکومتیں انشورنس کمپنیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کا حق ہوتا ہے کہ حکومتیں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں تاکہ زندگی آسودہ ہو اور کسی پریشانی سے آزاد ہو۔ ساری پریشانیاں اور مشکلیں غریب دنیا اور مسلم دنیا میں رہنے والوں کے لئے ہیں۔ وہ زندگی میں بھی پریشانیوں میں رہتے ہیں۔ اور مرنے کے بعد چین نہ پائیں۔ ان کے پیچھے زندہ رہ جانے والے انہی کی زندگی کو دہراتے رہیں۔اس زندگی میں کوئی نیا پن کوئی کھلا پن نہیں ہے جو بھی آسانیاں ہیں انہیں غیراسلامی قرار دے کے مشکلوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ دین اور دنیا کی کوئی یکجائی قبول نہیں کی جاتی۔ اس حوالے سے میرے بھائی مسعود عزیز خان کے پاس معلومات کا خزانہ ہے۔ ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا ہے کہ رسول کریمؐ کے زمانے میں جب تجارت کی غرض سے لوگ دوسرے علاقوں میں جاتے تھے تو راستے میں ڈاکوئوں سے بھی مڈبھیڑ ہو جاتی تھی۔ جو آدمی لٹ جاتا تھا اس کے لئے پہلے سے یہ انتظام ہوتا تھا کہ اس کا مطلوبہ نقصان پورا کر دیا جائے۔ سب لوگ مل کر ایک فنڈ بنا لیتے تھے۔ ہر آدمی اس میں اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ ڈال دیتا تھا۔ اس طرح ایک اچھی خاصی جمع پونجی اکٹھی ہو جاتی تھی۔ اس میں سے متعلقہ آدمی کی مدد کر دی جاتی۔ اس دوران کوئی فوت ہو جاتا تو اس کی فیملی کی دیکھ بھال کے لئے بھی خدمت کر دی جاتی۔ سب سے بڑا کارساز تو اللہ تعالیٰ ہے مگر اس کے بندوں نے اللہ کے حکم سے زندگی کو آسودہ اور آسان بنانے کے لئے کئی پروگرام بنا رکھے ہیں۔ میں مسعود بھائی کا نمبر اس لئے لکھ رہا ہوں کہ کسی آدمی کو اگر اس حوالے سے کچھ اور تسلی چاہئے ہو تو وہ انہیں فون کر لے۔ 0300-4657533
جسے اپنے مرنے کا یقین ہوتا ہے اسی کو اپنی زندگی پر بھی یقین ہوتا ہے۔ کہتے ہیں موت برحق ہے اور اس میں کسی آدمی کو شک نہیں ہے۔ آدمی موت سے غافل رہتا ہے۔ شاید یہی زندگی کا راز ہے مگر اب ہماری زندگیوں میں کوئی راز نہیں رہا۔ زندگی کھلی کتاب ہے اور ہم اس کتاب عشق کا کوئی اگلا ورقہ کھولنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ میں نے ایک جملہ کبھی کہا تھا۔ وہ دوستوں میں بہت مذکور رہا۔ ’’ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم کبھی نہیں مریں گے مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ابھی نہیں مریں گے۔ یا پھر کبھی اور ابھی میں فاصلہ اتنا بڑھا لیا جاتا ہے کہ کوئی فیصلہ بھی اپنے نتیجے تک نہیں پہنچتا۔
جسے اپنے مرنے کا یقین ہے وہی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لئے سوچے گا اور یہ بھی سوچے گا کہ مرنے کے بعد آگے کیا ہو گا اور پیچھے کیا ہو گا۔ ہمارے ایک دوست نے کتاب لکھی ہے۔ ’’مرنے کے بعد کیا ہو گا‘‘ جسے پڑھ کر زندگی گزارنا مشکل ہو گیا۔ کوئی تو لکھے ’’مرنے سے پہلے کیا ہو رہا ہے۔‘‘