پنجاب اسمبلی: حکومتی ارکان کی بیوروکریسی پر شدید تنقید
لاہور (سپیشل رپورٹر +خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں محکمہ مال و کالونیز سے متعلق حکومت کی جانب سے تسلی بخش جوابات نہ آنے پر سپیکر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ ایوان سے اس طرح کا مذاق برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے غلط اور تسلی بخش جوابات نہ آنے پر چار سوالات کو تحقیقات کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے آئندہ سیشن میں اسکی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ وقفہ سوالات میں حکومتی ارکان نے بیورو کریسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ قانون سازی بھی بیورو کریسی ہی کرتی ہے، ہم اپنے آپ کو پہچانیں، اگر ہم اپنا اپنا کام اور قانون سازی میں دلچسپی لیں تو ہمیں گداگروں کی طرح بیورو کریسی کے پیچھے پیچھے نہ جانا پڑے، وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کہ اراضی کو کمپیوٹر ائزڈ کرنے کا منصوبہ جون 2014ء میں مکمل ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا، یہ منصوبہ اپنے پہلے اعلان کے مطابق مقررہ مدت میں مکمل ہو جاتا تو اس سے ساڑھے 3ارب روپے کی بچت ہو سکتی تھی۔ حکومتی رکن چودھری افتخار احمد چھچھر اور ایک دوسرے سوال کے جوابات ایک ہی طرح آنے اور غلط جوابات پر حکومتی رکن نے شدید احتجاج کیا۔ حکومتی رکن میاں طاہر نے کہا کہ ایوان کا مذاق اڑایا جارہا ہے، ایوان کو تحفظ دینا اور قانون کی بالا دستی کیلئے سپیکر نے کردار اد اکرنا ہے ۔ جس پر سپیکر نے کہا کہ یہ مقدس ایوان ہے اسکی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ یہاں بادشاہت اور شہنشائیت ہے اور جس کا جو مرضی دل کرتا ہے وہ کرتا ہے۔ اس ایوان کی کارروائی پر غریب عوام کا کروڑوں روپے خرچ ہوتا ہے لیکن محکمے کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ بیورو کریسی کا رویہ اچھا نہیں۔ وزراء کی فوج ظفر موج ہے لیکن کوئی وزیر ایوان میں موجود نہیں۔ جس پر سپیکر نے دوبارہ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا محکمہ سنجیدگی نہیں دکھا رہا، میں وارننگ دے رہا ہوں یہ رویہ نا قابل برداشت ہے۔ امجد علی جاوید نے سوال کاتسلی بخش جواب نہ آنے پر کہا کہ افسر صرف ایوان ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی بیوقوف بناتے ہیں۔ جتنے قبضے گزشتہ تین برسوں میں ہوئے ہیں اتنے تو گزشتہ ساٹھ سال میں نہیں ہوئے۔ یہاں لوٹ سیل لگی ہوئی جو جتنے زیادہ قبضے کراتا ہے اسے اتنے زیادہ علاقوں کا چارج دیدیا جاتا ہے۔ حکومتی رکن طاہر سندھو نے کہا کہ قانون سازی بھی بیورو کریسی کرتی ہے، ہم تبادلوں کے لئے انکے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔شیخ علائو الدین نے تحریک التوائے کار میں کہا کہ پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن نے پنجاب حکومت کے اعلان پر 10فیصد بچے مفت پڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔ پرائیویٹ سکولز بھاری فیس وصول کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ ترقیاتی پروگرام کا پچاس فیصد حکومت لاہور میں خرچ کر رہی ہے جبکہ باقی پچاس فیصد35اضلاع میں خرچ کیا جاتا ہے جس سے پس ماندہ اضلاع میں ردعمل پایا جاتا ہے اس لئے صوبہ بہاولپور کی عوام نے تحریک بحالی صوبہ بہالپور شروع کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کپاس، گندم اور دیگر اجناس کا ایک بہت بڑا حصہ بہاولپور سے آتا ہے لیکن وہاں عوام کو ترقی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ بہاولپور کو صوبہ قرار دینے کی قرار داد پر عمل درآمد کیا جائے۔ بہاولپور، رحیم یار خان، ڈی جی خان جیسے شہروں میں پی ایچ اے بنائے جائیں۔