آرٹیکل225 : انتخابی نتائج ٹربیونل میں ہی چیلنج ہو سکتے ہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیشن رپورٹ + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے عام انتخابات 2013ءکو کالعدم قرار دینے سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے 10 صفحات پر مبنی یہ فیصلہ تحریر کیا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 225کی موجودگی میں انتخابی نتائج کو کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 225کے تحت کسی بھی انتخابات کے نتیجہ کو صرف الیکشن ٹربیونل میں ہی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ عدالتی فیصلے سے ممکنہ متاثرہ شخصیات کو فریق نہ بنانا انہیں فیئرٹرائل کے حق سے محروم کرنا ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں عدم شواہد، لازمی شخصیات کو فریق نہ بنانے پر درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی گئی ہیں، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے ان نکات پر عدالت کی معاونت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آئینی اور قانونی نکات پر درکار معاونت نہ ملنے پر عدالتی کارروائی آگے نہیں بڑھائی جا سکتی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت اگر درخواستوں کو منظور کر لیتی تو تمام ارکان پارلیمنٹ اپنی رکنیت سے محروم ہو جاتے۔ دائر درخواستوں میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو فریق تک نہیں بنایا گیا۔ الیکشن کمشن کے جن ارکان کے خلاف کارروائی کی استدعا کی گئی انہیں بھی فریق نہیں بنایا گیا۔ عدالتی فیصلے سے ممکنہ متاثرہ شخصیات کو فریق نہ بنانا انہیں فیئر ٹرائل کے حق سے محروم کرنا ہے جو آئین کے آرٹیکل 10-Aکی خلاف ورزی ہے۔ عدم شواہد، لازمی شخصیات کو فریق نہ بنانے پر درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ انتخابی دھاندلی کے الزامات سے متعلق کوئی دستاویز منسلک نہیں کی گئی۔ ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں عدالتی کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ثبوت ہیں تو ٹربیونل میں پیش کئے جائیں۔دی نیشن کے مطابق فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے پاس انتخابات کو کالعدم قرار دینے یا اسے جواز دینے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے، یہ صرف الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس اعجاز چودھری اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس (ر) شاہد اختر، محمود صدیقی اور زاہد سرفراز نے اپنی (3)184 کے تحت دائر درخواست میں عام انتخابات کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے وکیل اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے کہ آیا آرٹیکل 225 کے تناظر میں ٹربیونلز کے سوا انتخابی پٹیشنز کی سماعت کا کوئی طریقہ موجود ہے اور آیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام نتائج کالعدم قرار دیئے جا سکتے ہیں۔