’’سانحہ پشاور سے ملک میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو بھی بے پناہ نقصان پہنچے گا‘‘
لاہور(حافظ محمد عمران/ نمائندہ سپورٹس) سانحہ پشاور ملک میں کھیلوں کی بین الاقوامی سرگرمیوں کے حوالے سے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے کھیلوں کی مختلف تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداران مختلف رائے رکھتے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین شہر یار خان کا نوائے وقت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کینیا کی طرح دیگر ٹیموں بھی پاکستان کا دورہ کریں گی۔ ہم ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے لئے پر عزم ہیں اور ابھی کوئی منفی بات سامنے نہیں آئی، نہ ہی کسی نے ہمارے ملک میں آ کر کھیلنے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ نقصان ہو سکتا ہے لیکن ہم یہاں موجود اسلئے ہیں کہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں۔پشاور کے سکول میں دہشت گردوں کا بچوں پر حملہ غیر انسانی فعل ہے اس پر مذمت سے بڑھ کر کہنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو مار ڈالنا کہاں کی بہادری اور غیرت ہے۔ حملہ آور مرد ہوتے تو سامنے آ کر وار کرتے، جوانوں کا مقابلہ کرتے۔ ضرب عضب کے جواب میں بچوں پر جوابی حملے انتہائی دکھ کرب اور تکلیف والی صورتحال ہے۔پاکستان ٹینس فیڈریشن کے پیٹرن سید دلاور عباس کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایمر جنسی اور حالت جنگ کا اعلان کرتے ہوئے تمام عمارتوں کی سکیورٹی کے حوالے سے غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے احمد یار لودھی کا کہنا تھا کہ سانحہ پشاور سے ملک میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو بھی بے پناہ نقصان پہنچے گا۔ ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے تو دنیا میں ہماری ساکھ بحال ہو گی لیکن کیا ان حالات میں باہر سے کوئی کھیلنے آئے گا؟ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے مخدوم سید فیصل صالح حیات کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔ کامران اکمل کا کہنا تھا کہ بھی تک صدمے کی کیفیت میں ہوں۔ اعصام الحق کا کہنا تھا کہ اس طرح کی درندگی کا کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا۔جہانگیر خان کا کہنا تھا کہ سانحہ پشاور کے بعد سب کو ایک ہو کر ملک کے لئے سوچنا اور کام کرنا ہو گا۔ ظالموں نے بچوں کو شہید کرکے کیا پیغام دیا ہے۔ اظہر زیدی کا کہنا تھا کہ مل کر ملک کو ظالموں سے نجات دلانے کا بندوبست کرنا ہو گا۔ خواجہ ندیم احمد کا کہنا تھا کہ یہ ظلم سے بڑھ کر ہے۔ عامر نذیر کا کہنا تھا کہ بچوں پر گولیاں برسانا انسان دشمنی ہے۔ عبدالقادر کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کی عالمی سطح پر مذمت کی ضرورت ہے۔