پھولوں کے شہر میں پھولوں کا قتلِ عام
قلم تو اُٹھا لیا لیکن آنسوﺅں سے بھیگے ہوئے صفحے پر کیسے لکھا جائے۔ آج پہلی مرتبہ زندگی میں ایسے لمحات آئے ہیں کہ انسانیت کو شرم سے منہ چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی۔ کل پشاور میںجو کچھ ہوا اس کی تفصیلات ابھی تک آرہی ہیں۔ اس پر ماتم اور سوگ فطری عمل ہے لیکن اس قبیح کاروائی کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر دشمن ہار گیا ہے۔ اس دلخراش واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو یکجا کردیا ہے اور سب ایک ہوگئے ہیں۔ کیا اس عمل کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ محض مذمت اور افسوس کیاجائے گا نہیں‘ ہرگز نہیں۔ ہماری جری افواج اس منصوبہ بندی کے تانے بانے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوچکی ہےں۔میں تو ٹیلی ویژن پر اسی حملے میں بچ جانے والے اور آگ و خون کی ہولی سے سلامت نکلنے والے معصوم بچوں کے خیالات و جذبات سُن کر حیران ہوا کہ کس طرح وہ بلند آواز کے ساتھ اپنے مصمم حوصلے اور فولادی عزم کا اظہار کررہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں خوف و سراسمیگی کی بجائے جرا¿ت اور ولولہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ایک بچے نے تو افواج پاکستان کے سپہ سالار کو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں مجاہد اور سپاہی سمجھا جائے ہم گھبرانے والے نہیں ہیں۔ دوسری طرف ان شیطان صفت انسان نما درندوں کی بہادری کا یہ عالم ہے کہ چُھپ کر وار کرنے آئے اور اپنے آپ کو خود ہی اُڑادیا۔ بتائیے جو شخص موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے ازخود اپنے آپ کو مارنے پر تُلا ہوا ہو وہ کہاں کا بہادر ہے؟ہمارے مذہب کو کھلونے کی طرح استعمال کیاجارہا ہے۔ مذہبی منافرت اور شدت پسندی کا عفریت ہمارے قومی جسدِ واحد کو پارہ پارہ کررہا ہے۔ ظلم اور بربریت کی یہ آگ پہاڑوں‘ بستیوں اور بازاروں سے آگے پھیل کر اب سکولوں اور مدرسوں تک پہنچ چکی ہے۔ معصوم کلیوں کی طرح مہکتے چہکتے بچے جن کا اس بے معنی جنگ سے دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں ان پر حملہ کرکے بے دردی سے ان کو شہید کردینا بھلا کہاں کی انسانیت ہے؟ اس اندوہناک واقعے کو طالبان اور داڑھی والوں کی کاروائی قراردے کر ایک مرتبہ پھر اسلام کے شفاف دامن پر دھبہ لگانے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ ان بے ایمانوں کا اسلام یا مسلمانوں سے تو کیا انسانوں سے بھی تعلق نہیں جوڑاجاسکتا۔ اسلام کے بنیادی اصولوں سے آگاہی رکھنے والا عام شخص بھی یہ بخوبی جانتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی کی تعلیمات اور معاملات بچوں کے بارے میں کیا ہیں۔ حضور سرور کائناتﷺ نے تو حالت جنگ میں بھی بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین کے لیے ضابطہ اخلاق اور رعایات عنایت فرمائی ہیں۔ معلوم نہیں یہ کونسا اسلام یا کونسی خدمت ہے جو دہشت گرد متعارف کروارہے ہیں اور ویسے بھی اس بات کو آج کی دنیا میں ایک طے شدہ اصول کے طور پر مان لیا گیا ہے کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وطن عزیز پاکستان کی سالمیت اور اس کے استحکام پر آج تک اتنا بڑا حملہ نہیں کیا گیا۔ تاریخ میں 16دسمبر کے دن کا حوالہ پہلے ہی کچھ پسندیدہ نہ تھا اب اسی دن اس سے کئی گُنا بڑا اور شدید وار دشمن کی طرف سے کیا گیا ہے۔ دشمن کے حملہ اور اس کی سازش سے بھی زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم آج تک دشمن کا تعین ہی نہیں کرسکے۔ ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ بہت ہوچکا۔ اب ہمیں ہر مصلحت سے بالاتر ہوکر اور ہر مفاد و مطلب کو بالائے طاق رکھ کر دشمن کی نشاندہی بھی کرنی ہے اور اس کا کھوج بھی لگانا ہے۔ ہماری افواج اور خفیہ ایجنسیاں دنیا میں معتبر درجہ رکھتی ہیں اور پوری قوم ایک دیوار کی طرح اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی مائیں اپنے لاڈلے بچوں کے بچھڑنے پر غمگین ضرور ہیں لیکن جب وہ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتی ہیں تو ان کی دعا میں شہیدوں کے درجات کی بلندی کے ساتھ مادرِوطن کی ترقی و حفاظت کی التجا ضرور شامل ہوتی ہے اور یاد رہے جس قوم کی ماﺅں کے حوصلے اور عزم آہنی ہوں وہ قوم کبھی تنزلی کی طرف نہیں جاتی۔ باقی جہاں تک ملک میں قوانین و آئین کی پاسداری اور حکومتی رِٹ کا تعلق ہے اس پر بھی سنجیدگی سے غوروخوض کی ضرورت ہے۔ گذشتہ طویل عرصہ سے پاکستان کی جیلوں میں قید سینکڑوں دہشت گرد جن کے بارے میں عدالتوں نے سنگین سزائیں متعین کررکھی ہیں ان پر عملدرآمد سے بھی دہشتگردوں کے حوصلے پست کیے جاسکتے ہیں۔