’’سانحہ پشاور کے شہیدوں کا خون رنگ لا رہا ہے‘‘
لوحِ تاریخ پر فطرت کا یہ ابدی قانون رقم ہے کہ حق و با طل کی جنگ میں شہید ہو نے والے کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا قرآن کریم میں بھی ارشاد خدا وندی ہے کہ اُسکی راہ میں شہادت پانے والا کبھی نہیں مرتا بلکہ ہمیشہ کے لیے زندہ ِجا وید رہتا ہے۔ اس پس منظر میں لازم ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں اور اساتذہ کی بعض انسان صورت حیوانوں اور درندوں کے ہاتھوں شہادت پانے والوں کا خو ن رنگ لائے تاریخ ِعالم گواہ ہے کہ ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد‘‘
آر می پبلک سکول کے معصوم بچوں کی شہادت تاریخ انسانی کا ایسا درد ناک اور دل خراش اپنی نو عیت کی واحد خوں چُکاں داستان ہے جس نے رب العز ت کے عر ش کو بھی ہلا دیا ہو گا ایسے شہیدوں کا لہو بھلا کیسے رائیگاں جا سکتا ہے اسی لیے پلک جھپکتے ہی معصوم شہیدوں کی آو بکاجب افلا ک سے ٹکرائی تو علم غیب حرکت میں آ گیا ۔
سانحہ پشاور کی خبر ملتے ہی وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے وزیر داخلہ چوہدر ی نثار علی خان کو فوراً پشاور پہنچنے کا جو حکم دیا تھا اُس کو عالم ِ غیب کے اشارہ پر بدل کر خود فوری طور پر پشاور پہنچے اور تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کیا اس فیصلہ میں اُنکے درباری وزیروں، مشیروں کا کوئی دخل نہ تھا۔ نواز شریف اور عمران خان کے پشاور پہنچنے سے پہلے ہی پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف ،کور کمانڈر پشاور کے ہیڈ کوارٹر ز میں سانحہ پشاور کا ہر پہلو سے جائزہ لینے ننھے شہیدوں کی دیکھ بھال اُ نکے لواحقین کے ساتھ اُنکے دُکھ درد میں شرکت کے ساتھ ساتھ اس سا نحہ کے ذمہ دار درندوں اور اُن کے سر پرستوں کی کھو ج کے لیے ضروری اقدامات میں فوری اقدامات کے لیے مختلف احکامات ، اقدامات اور قو می سطح پر اس سانحہ سے پیدا شدہ صورتحال سے نپٹنے کے لیے تمام ضروری پلاننگ کو عملی صورت دینے میں مصروف تھے ۔16 دسمبر 1971ء کو پاکستان پر ایک قیامت سقو ط ڈھا کہ اور وطن عزیز کے دو لخت ہو نے کی صورت میں بر پا ہوئی تھی۔ تقدیر نے 16دسمبر 2014ء کو سانحہ پشاور کی صورت میں ایک اور قیا مت صغری بر پا کر دی تھی جس پر ایک دفعہ پھر پوری قو م اشکبار تھی ۔اس پر علیحدہ کالم لکھوں گا۔پاکستان کی سلا متی اور سکیورٹی اس نا زک لمحہ پر ایک عجیب اور انوکھا منظر نامہ پیش کر رہی تھی عالمی اور علا قائی سطح پر حالات تشویش نا ک صورت سے دو چار ہیںپاکستان کی انٹرنل سکیورٹی اور اندرونی حالات دہشت گردی کے خلا ف جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔ امن و امان مفقود یعنی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سیاسی اور اقتصا دی حالات دگر گوں ہیںایسی صورت میں پاکستا ن تحریک انصا ف ایک تیسری قو ت بن کر ابھری ہے جو 2013کے عام انتخابات کے بارے میں بہت سے حلقوں میں ووٹوں کی تحقیقا ت کے لیے ملکی سطح پر احتجا ج اور دھر نوں میں حکو مت کو تعطل کا شکار بنانے کے در پے ہے۔ بد قسمتی سے حکو مت اور PTIکے درمیان مذاکرات دونوں اطراف کی طرف سے نا مزد کمیٹیوں کے سپر د ہیں۔ جو با وجوہ کوئی مثبت پیش قد می نہیں کر سکیںحالانکہ راقم نے بار بار عر ض کی ہے کہ ذاتی انا کے حسا س مسائل کمیٹیوں کے بس کی با ت نہیں میا ں نواز شریف دل بڑا کریں اور عمران خان سے ذاتی ملا قات کر کے قو می مفاد کو ذاتی یا پارٹی مفاد پر تر جیح دیتے ہوئے باہمی مفاہمت کے جذبہ کے تحت معا ملا ت طے کر لیں لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور آج کا دن دیکھنا پڑا جس کے لیے آرمی پبلک سکو ل پشاور کے بچوں اور اساتذہ کی تقریباً 140سے اوپر جانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بن کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا ہے۔ لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔جناب نواز شریف نے بھی عمران خان کے فیصلے کا خیر مقدم کر تے ہوئے 2013کے انتخابات کے بارے میں PTI کے تحفظات کا ازالہ کرنے کا و عدہ کیا ہے ۔ خو شی کی بات ہے کہ پشاور پہنچنے پر وزیر اعظم نواز شریف اور چئیر مین عمران خان دونوں چیف آف آرمی سٹا ف جنرل راحیل شریف سے ملا قات کے لیے جب کور ہیڈ کواٹر پشاور میں پہنچے تو کورکمانڈر پشاور نے ملک کی سکیورٹی کے سنگین پس منظر سے جب آگاہ کیا تو دونوں رہنماؤں کے دل پگھلے اور عالم غیب نے بھی رہنمائی فرمائی جس کے نتیجہ میں فوراً دوسرے دن آل پارٹیز کانفرنس گورنر ہاو س پشاور میں بلائی گئی جس میں تحریک سا ز فیصلے کیے گئے ۔ جن کی تفصیلا ت سے قو م آگاہ ہے اتنے کم وقت میں اتنے بڑے فیصلے معجزہ سے کم نہیں ہوتے ۔اسی دوران جبکہ گورنر ہاو س پشاور میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے پاکستان کی تمام پارٹیوں کی سیا سی قیادت نے ایک مثالی فکری وحدت کے ساتھ اپنی محب وطنی کا عملی ثبوت دہشت گردوں کے خلا ف اچھے بُرے طالبان کی تمیز کے بغیر کارروائی کے لیے لائحہ عمل ایک ہفتے کے اندر بنا کر ایکشن پلان پر اتفا ق کا اظہار کیا اور اسکے ساتھ ہی وزیر اعظم نے پھانسی پر پابندی ختم کر تے ہوئے ایک ہزار سے زائد دہشت گردوں کو جلد از جلد سزائے موت پر عمل درآمد کا حکم جاری کیا تو پہلی دفعہ قوم کے عزم کو ایک مثبت پیش رفت کا ثبو ت ملا۔
اسی دوران چیف آف آرمی سٹاف نے کا بل کا ہنگامی دورہ کیا جس میں پشاور پبلک سکول کے وحشی درندوں کی تمام تفصیلات اور اُس قیامت صغریٰ کی پلاننگ کرنے والوں کے تمام ثبوت افغانستان کے صدر اور متعلقہ انٹیلی جنس کے سر براہوں کو پیش کر تے ہوئے مجر موں کے پاکستان حکو مت کو حوالے کر نے کا مطالبہ کیا جن میں ملا فضل اللہ اور اُسکے قریبی سا تھی بھی شامل ہیں۔ یہ مستقبل میں نئے حالات کی نئی سمت کا پہلا خوشگوار اشارہ ہے۔