آج بچے گھر نہیں لوٹے
’’16 ۔دسمبر‘‘ خوبصورت نقش نین۔ دمکتے چہرے۔آپس میں اٹھکیلیاں کرتے۔ غم وفکر سے بے پرواہ۔آنیوالی قیامت سے بے خبر۔کامیابی کے یقین کیساتھ امتحانی پرچہ جات حل کرتے ہوئے بیحد مسرور تھے۔ اچانک خوشیاں بارود کی بُو میں دب گئیں۔ پھولوں کا شہر مرجھا گیا۔ ننھے پھول ۔کلیاں مسلی گئیں۔ بچوں کا کیا قصور تھا ۔وہ معصوم تو علم حاصل کرنے گئے تھے۔اتنا خوفناک۔سوگوار دن۔ اِس سے زیادہ بُرادن پاکستان کی تاریخ میں نہیں آئیگا۔’’16 دسمبر‘‘ کو ہمارا ایک بازو (مشرق پاکستان) ہم سے الگ ہو۔اسی دن ڈیڑھ سو بچوں کے بازو اپنی مائوں سے کٹ گئے۔ قوم سکتہ میں ہے۔اِس وقت آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہے۔ بچے ۔بوڑھے تمام افراد غم سے رو رہے ہیں۔ پورا ملک سوگ ضغم و اندوہ کی تصویر بنا فریاد کناں ہے کہ ’’یا اﷲ ‘‘ معاف فرما دے۔ہمارے دشمنوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دے۔ نہایت دلخراش مناظر ہیں۔ بے بس ۔خوف زدہ مائیں۔باپ اِدھر سے اُدھر بھاگتے اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے ہیں۔ 20‘20 سال کی والدین کی قیمتی کمائی ۔ظالموں نے چند سیکنڈز میں لُوٹ لی۔ میرا یقین ہے کہ ایسا وحشیانہ ۔گھنائونے فعل کا مرتکب کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ قوم کے ’’150 قیمتی ہیرے‘‘ بدترین سفاکیت نے چوری کر لیے۔یہ سوال باربا ر۔ذہن میں چبھ رہا ہے۔ اتنے مصروف۔ حساس علاقے میںجہاں درجنوں سکول موجود ہیں۔ سخت سیکورٹی کے باوجود ’’دہشت گردوں ‘‘ کو اتنا وقت مل گیا کہ سیدھی فائرنگ ’’گیارہ دھماکوں‘‘ کے ساتھ بے تحاشا بارودی سرنگیں بھی بچھا گئے۔ ننھے بدن ۔گلابوں جیسے چہرے بھی ظالموں نے نہ بخشے۔خون کر دیا۔ درندوں نے میرے شہر کا ۔اتنا ظلم تو اسرائیل نے ’’فلسطین‘‘ پر بھی نہیں کیا۔ والدین کرب۔ خوف میں مبتلا سوچ رہے ہیں کہ سکول بھی محفوظ نہیں رہے۔ ’’17دسمبر‘‘۔ ملک میں دعائیہ تقاریب ہوئیں۔ بچوں ۔قوم کو ایک مرتبہ پھر ان دیکھے دشمنوں کیخلاف لڑنے کا بھر پور عزم۔ارادہ ظاہر کرتے دکھایا گیا۔ ہم ایک ۔دو یا پھر 5 سہی ۔۔ظالموں کو مار کر دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ دینگے اور وہ ’’درندے‘‘ ایک ہی حملے میں ’’100‘‘ سے زائد بے گناہ لوگوں کو چشم زدن میں شہید کر دیتے ہیں۔ شاید سیاست۔ سماج کی طرف سے سرد مہری کا رویہ ہمارے دشمنوں کے عزائم پورے کرنے میں ممدومعاون ہوتا رہا ہو۔قوم اب سیاستدانوں کی طرف مت دیکھے۔خود سے فیصلہ کرے۔خود کے تحفظ کیلئے متحد ہو جائے۔سڑکوں پر نکل آئے اور دشمنوں کیخلاف جنگ کا اعلان کر دے۔ خوف زدہ مت ہوں۔ یاد رکھیں۔۔ ڈرمیں انسان ہمیشہ غلط فیصلے کرتا ہے۔’’3 دن کیلئے ‘‘ سوگ۔قومی پرچم سر نگوں کرنے کا اعلان قابل ستائش ضرور ہے۔ مگر یہ ضرور کہیں گے کہ کیا ہی اچھا ہوتا ’’17دسمبر‘‘ کو تمام لیڈر شپ اپنے اپنے علاقے کے ’’سکولز‘‘ میں جاتی۔ پورا دن بچوں کے ساتھ گزارتے۔سب سے بہترین بیان ’’عمران خان‘‘ کا تھا‘جو واقعی ایک باپ کے جذبات کی عکاسی کر رہا تھا۔کچھ لوگ ان اعلانات پر معترض تھے کہ سانحہ’’ واہگہ بارڈر‘‘ پر ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔پشاور پہنچنے میں جلدی ( موجودگی کے باوجود)۔ ’’لاہور میں کیوں نہیں دیکھنے کو ملی۔اِس عمل کو بھی لوگوں نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے اُسی طرح تعبیر کیا ہے۔جیسے پٹرول۔بجلی کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے ’’پشاور‘‘ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ لیکن ہماری استدعا ہے کہ مذہبی و سیاسی گروہ‘ شخصیات۔ ڈرامے بند کریں۔قوم کی قسمت سے مزید نہ کھیلیں۔ایسی جمہوریت کو سو سلام جو معصوم بچوں کی حفاظت نہ کر سکی۔’’قیادت‘‘۔ اداروں سے۔اپنے فیصلوں سے ’’سیاست‘‘ کو آئوٹ کر دے۔ ہم تب تک آسان ہدف بنتے رہیں گے ۔جب تک ہماری پولیس سیاسی چنگل سے آزاد نہیں ہوتی۔جب تک قوم کی بجائے شخصیات کے تحفظ پر درجن ۔درجن جوان مامور رہیں گے۔ ہم اس طرح قربانیاں دیتے رہیں گے۔ کیا پہلے ہونیوالی ہلاکتیں افسوسناک نہیں تھیں۔ قوم کس کی بے حسی‘غفلت‘لاپروائی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے؟ کوئی ایک فرد‘ادارہ‘ ذمہ دار نہیں۔ یہ کلیتاً ریاستی ناکامی ہے۔ اِس عفریت سے نجات پانا چاہتے ہیں تو پھر نفرتوں کے جلتے آلائو کو تحمل ۔برداشت سے بجھائیں۔ فرقوں میں بٹے ہوئے ریوڑ کو متحد کر کے ’’پاکستانی قوم‘‘ بنا دیں۔ مصلحتوں میں جکڑی ہوئی ’’قیادت‘‘ اپنے طرز عمل کا جائزہ ضرور لے۔ اندرونی سطح پر بھیانک سیاسی عدم استحکام سے دو چار قوم کا ملک خارجہ میدان میں بھی تنہایاں اپنے نام کروا چکا ہے۔ خون کی ہولی کھیلنے والے شکاری ’’ایک صفحہ‘‘ پر ہیں مگر شکار ہونے والے بکھرے ہوئے آپس میں لڑ رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی مدد جاری رکھنے کا امریکی صدر کا بیان تکلیف دہ لمحات میں بیحد اہمیت کا حامل ہے۔ ’’امریکہ ‘‘ کو چاہیے کہ وہ ’’افغانستان ‘‘ میں پناہ گزین ۔ روپوش دہشتگردوںکو پاکستان کے حوالے کروائے۔ پاک افغان سرحد کو (طویل سہی مگر نا ممکن نہیں ) کو بلند ترین کنکریٹ دیوار میں ڈھک کر ہمیں تحفہ کی صورت دیدے ۔ جاری جنگ میں اِس سے بڑا تحفہ نہیں ہو سکتا۔ مزید براں ’’انڈیا‘‘ کی ظاہر و پوشیدہ کاروائیوں۔ سازشوں کو لگام ڈلوائے۔کشمیر کا تنازع حل کروائے۔ 17 دسمبر ٹی وی پر پارلیمانی میٹنگ کے بعد پریس کا نفرنس چل رہی ہے۔ ایک دہائی سے دہشت کردی کی شکار قوم کی قیادت فیصلہ کر رہی ہے کہ ’’سات دن‘‘ کے اندر کمیٹی بنا کر لائن آف ایکشن تجویز کیا جائے۔اچھا ہوتا کہ پریس کانفرنس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا کہ تمام خطرناک مجرمان کو پھانسی دیدی گئی ہے۔’’پشاور ٹریجڈی سے بھی بڑا سانحہ‘‘ ۔ سر براہی بھی ایسے ’’وزیر‘‘ کے سپرد جو مہنیوں نظر ہی نہیں آتے۔ شاید غائب رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہوں۔چار گھنٹے اکٹھ کے بعد برآمد کیا ہوا؟؟ گڑ میں سے مکھی۔سارا دن شہر کے مختلف علاقوں میں جنازے اُٹھتے رہے۔مائوں کے کہرام سے شہر لرزتے رہے۔ مگر اُس وقت تمام خون آلود تصویر یں مرجھا گئیں جب ’’ قومی قیادت‘‘ کو بے تحاشا ہنستے ہوئے۔آپس میں مذاق کرتے ہوئے دیکھا۔۔ لمحہ حشر میں دُکھ سے دل دھڑکنا بُھول گیا۔’ ’ظالمو‘‘ ۔ابھی تو تدفین بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔۔ ماتم کناں شہر میں ہنستے ہوئے چہرے۔ کیا قیامت کی نشانیاں ہیں جو پے در پے ہم پر وارد ہو رہی ہیں۔کبھی کبھی چِھٹی حس بڑی خطرناک سوچ ابھار دیتی ہے۔ لوگوں کو پشاور ٹریجڈی اور دھرنا کے اختتام کے متعلق کسی قسم کے خدشات یا افواہوں پر کان نہیں دھرنے چاہیں۔بحرحال ثابت ہو گیا کہ ’’عمران خان ‘‘ وطن دشمنوں کے پے رول پر نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر دھرنا ختم نہ ہوتا۔انا ۔ضد کے خول میں رہنے والوں کیلئے یہ اچھا پیغام ہے۔ لچک کسی بھی لیڈر کا سب سے بڑا وصف ہوتا ہے۔