مولانا فضل الرحمن کی ’’حِکمتِ عملی!‘‘
اثر چوہان
مسلم لیگ (ن) کی اتحادی پارٹی جمعیت عُلماء (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیریوں کو اُن کا حقِ خود ارادیت دِلوانے کے لئے کئی یورپی ممالک کو ’’آمادہ کرنے کے بعد‘‘ وطن واپس پہنچے تو انہوں نے تو کمال ہی کر دِیا۔ جِن طالبان کی دہشت گردی کی وارداتوں کو پاکستان کی مختلف حکومتوں کی غلط خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیتے اور جمہوری عمل میں مسلسل شرکت کے باوجود ’’طالبانی شریعت‘‘ کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے (ہیں)، سانحۂ پشاور کی پُرزور مذّمت کر دی ہے اور کہا ہے کہ ’’معصوم بچوں کو خون میں نہلانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔‘‘ بچوں کو شہید کرنے والوں کو ہر صورت انصاف کے کٹہرے میں لا کر انہیں عِبرت ناک سزائیں دی جائیں۔‘‘
مولانا مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے یورپی ممالک کو آمادہ کرنے پر آمادہ ہُوئے یا نہیں؟ یہ تو بعد میں پتہ چل ہی جائے گا لیکن سانحہ پشاور کی ذمہ داری قبول کرنے والے دہشت گرد طالبان کو انصاف کے کٹہرے میںلا کر انہیں عِبرتناک سزائیں دینے کا مطالبہ۔ کیا واقعی مولانا فضل اُلرحمن کی طرف سے کِیا گیا ہے؟
’’یہ آپ ہیں تو ٗ آپ کے قُربان جائیے‘‘
مولانا فضل الرحمن اور جمعیتِ عُلماء اسلام کے وفاقی وزیر مولانا عبدالغفور حیدری کا مشترکہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے طالبان سے جنگ کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور اہلکاروں کو ’’شہید‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ آج تک دہشت گرد طالبان کے ہاتھوں پاک فوج کے افسروں اور اہلکاروں سمیت شہید ہونے والے 55 ہزار معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو مولانا صاحب نے کبھی بھی شہید نہیں سمجھا اور نہ کہا۔ نومبر 2013 ء کے اوائل میں دہشت گرد طالبان کا سرغنہ حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تو (اُن دِنوں) جماعتِ اسلامی کے امیر سیّد منوّر حسن نے اُسے ’’شہید‘‘ قرار دِیا۔ مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ ’’کیا آپ بھی حکیم اللہ محسود کو شہید سمجھتے ہیں؟‘‘ تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ’’اگر امریکہ کے ہاتھوں کوئی کُتّا بھی مارا جائے تو میں اُس کُتّے کو بھی ’’شہید‘‘ کہوں گا۔‘‘
دراصل دہشت گرد طالبان سے افواجِ پاکستان اور پاکستان کے محب ِ وطن عوام کی جنگ نظریاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کی امارت میں فعال جمعیت عُلماء اسلام کے دونوں گروپ، جماعت اسلامی اور کئی دوسری مذہبی جماعتوں کا مؤقف بلکہ ’’ایمان‘‘ ہے کہ ’’طالبان کے خلاف افواجِ پاکستان کی جنگ دراصل امریکہ کی جنگ ہے۔‘‘ یہ پہلی بار ہُوا کہ پارلیمنٹ میں پارلیمانی پارٹیوں اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کے اجلاس میں جب وزیرِاعظم نواز شریف نے دہشت گردوں سے افواجِ پاکستان کی جنگ کو ’’پاکستان کی جنگ‘‘ قرار دِیا تو امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق اور جمعیت عُلماء اسلام ( ف) کے جناب محمد اکرم دُرّانی نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔
بہرحال مولانا فضل الرحمن نے سانحۂ پشاور کے ذمہ دار دہشت گرد طالبان کی مذّمت کر کے ثابت کر دِیا ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق انہوں نے اپنی ’’حکمتِ عملی‘‘ تبدیل کر لی ہے۔ اب مولانا کو کھُل کر یہ کہنا چاہیے کہ ’’طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کا قلع قمع کرنے کے لئے افواجِ پاکستان جو جنگ لڑ رہی ہیں وہ پاکستان کی جنگ ہے امریکہ کی نہیں۔‘‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جمعیت عُلماء اسلام (ف) کے مولانا محمد خان شیرانی کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’پاکستان کو بچانا ہے تو طالبان سے مذاکرات کرو!‘‘ مذاکرات تو ناکام ہو گئے اور دہشت گرد طالبان کے خلاف آپریشن ’’ضرب اُلعضب‘‘ بھی جاری ہے اور مولانا شیرانی بھی اپنی کرسی پر رونق افروز ہیں۔ وفاقی وزیر مولانا عبدالغفور حیدری بھی اپنے فتوے کے مطابق دہشت گردوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور اہلکاروں کو ’’شہید‘‘ نہیں سمجھتے۔ کیا طالبان کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کی ’’حکمتِ عملی‘‘ کی تبدیلی کے بعد اب اِن دونوں مولانائوں کو بھی اپنی ’’حکمتِ عملی‘‘ تبدیل کرنا ہو گی؟
حکومتِ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے امریکی ماہرین کا تعاون مانگ لِیا ہے۔ گویا دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جنگ میں بالواسطہ امریکہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ کیا پارلیمنٹ میں موجود جمعیت عُلماء اسلام ( ف) اور جماعتِ اسلامی کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اُن سیاسی جماعتوں کے پارلیمنٹیرینز کے ساتھ مِل کر دہشت گرد طالبان کے خلاف ’’حکمتِ عملی‘‘ تیار کرنا آسان ہوگا؟ 18 نومبر 2014 ء کو جب اسلام آباد میں ’’عُلمائے دیوبند کی سپریم کونسل‘‘ بنائی گئی تو اُس میں مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن اور لال مسجد فیم مولانا عبدالعزیز بھی موجود تھے ٗ جِس میں پاکستان میں نفاذِ اسلام اور امریکہ اور دوسری طاغُوتی (شیطانی) قوّتوں کے سیاسی و معاشی غلبہ سے نجات کا عہد کِیا گیا۔
مولانا عبدالعزیز ’’نظریاتی طور پر‘‘ اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والے طالبان اور اب ’’داعِش‘‘ کے پاکستان میں ’’سفیرِ کبِیر‘‘ ہیں اور ببانگِ دُہل‘‘ خود کو داعِش کا ’’شاہ ولایت‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔ لال مسجد پر اُن کا ابھی تک قبضہ ہے اور مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ پر اُن کی اہلیہ اُمّ حسّان کا۔ جہاں داعِش کے حق میں ’’خُود کُش حملہ آور طالبات‘‘ تیار کی جا رہی ہیں۔ اپریل 2007 ء میں لال مسجد کے خطیب ( سرکاری ملازم ) کی حیثیت سے ’’امیرالمومنین‘‘ کا لقب اختیار کر کے لال مسجد میں شرعی عدالت قائم کر کے مولانا عبدالعزیز نے وفاقی حکومت کو وارننگ دی تھی کہ ’’اگر حکومت نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف کوئی کارروائی کی تو پورے پاکستان میں خودکش حملے ہوں گے۔‘‘ پھر وہی کچھ ہُوا۔ مولانا عبدالعزیز اب "Action Replay" کے موڈ میں ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’سانحۂ پشاور کی اس لئے مذّمت نہیں کی تھی کہ کسی بھی دیوبند کے عالم نے نہیں کی۔‘‘
اب دیوبندی مکتبِ فِکر کے مولانا فضل الرحمن نے سانحہ پشاور کی مذّمت کر دی ہے۔ خیال ہے کہ مولانا عبدالعزیز بھی اپنی ’’حکمتِ عملی تبدیل کر لیں گے۔‘‘ مولانا فضل الرحمن جمہویت پسند ہیں اور پاکستان میں ’’شریعت کا نفاذ‘‘ بھی چاہتے ہیں۔ پہلے دونوں وزرائے اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے اتحادی رہے اور اُس کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف اور صدر زرداری کے۔ اب پھر وزیرِاعظم نواز شریف کے اتحادی ہیں۔ یہ الگ بات کہ مولانا کے کسی بھی اتحادی وزیرِاعظم اور صدر نے اُن کی خواہش کے مطابق ’’شریعت کا نفاذ‘‘ نہیں کِیا۔ اِس میں مولانا فضل الرحمن اور اُن کی ’’حکمتِ عملی‘‘ کو موردِ اِلزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یُوں بھی مولانا نے اِس بار اپنی ’’حکمتِ عملی‘‘ خالصتاً پاکستان اور عوام مفاد کی خاطر تبدیل کی ہے۔