مسلم لیگ ن، تحریک انصاف کی مفاہمت کی جانب پیشرفت، دھاندلی کی تعریف پر بدستور اختلاف
اسلام آباد (ابرار سعید/ نیشن رپورٹ) سانحہ پشاور کے بعد تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے بعد ہونیوالی اپنی ابتدائی گفت وشنید میں فریقین نے اپنے اختلافات کو کم از کم سطح پر لانے کی کوشش کی، تاہم اب بھی دونوں کے درمیان جوڈیشل کمشن کے قیام کے طریقہ کار اور دھاندلی کی تعریف سمیت بعض معاملات پر اختلافات باقی ہیں۔ جمعہ کے روز وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے مذاکرات کے آغاز کے حوالے سے پرامید دکھائی دیئے تھے تاہم ابتدائی بات چیت سے آگاہ ذرائع نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں دھاندلی کی تعریف پر شدید اختلافات موجود ہیں۔ دھاندلی کا فیصلہ کرنے کیلئے مسلم لیگ (ن) اپنی مرضی کے 30 حلقوں کا آڈٹ کرانے کی خواہشمند ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ جوڈیشل کمشن اس بات کی تحقیقات کرے کہ آیا کسی ایک پارٹی کو نوازنے کیلئے کسی قسم کی منظم دھاندلی کی گئی یا نہیں اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے تعاون سے الیکشن کے مخصوص نتائج حاصل کرنے میں کسی خاص پارٹی کا کوئی کردار ہے یا نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ 30 حلقوں کی تحقیقات 272 حلقوں پر مشتمل الیکشن کی نمائندگی نہیں کر سکتے لہٰذا انکا دیا گیا طریقہ اپنانا چاہیے۔مسلم لیگ (ن) اپوزیشن پارٹیوں کی مشاورت سے جوڈیشل کمیشن کا پارلیمنٹ کے ذریعے قیام چاہتی تھی تاہم تحریک انصاف صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس کام کی تکمیل کی خوا ہاں ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن پارٹیوں نے عمران کو سمجھایا ہے کہ جوڈیشل کمشن کے قیام کے بعد اسکا طریقہ کار بے معنی ہو کر رہ جا ئیگا جس کے بعد اب دونوں پارٹیوں میں بڑا اختلاف دھاندلی کی تعریف پر باقی ہے۔ تحریک انصاف اس سے قبل دھاندلی کی تعریف اور اسکے تعین کیلئے یہ پیشکش کر چکی ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے 30 تک حلقوں کا انتخاب کیا جائے اور ان حلقوں پر دھاندلی کے تعین کیلئے مخصوص شرائط کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ ان حلقوں پر شفافیت کی یقین دہانی کیلئے تحریک انصاف نے 8 چیزوں کا حصول لازمی قرار دیا تھا۔ تحریک انصاف کے ٹرمز آف ریفرنس سے متعلق جوڈیشل کمیشن کے نتائج اور تحقیقات کی بنیاد ریکارڈ کے ثبوت پر ہے۔ ان ثبوتوں کے ملنے تک شفافیت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے دھاندلی کی تعریف آر او پی ایکٹ 1976ء میں بھی نہیں کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے تحریک انصاف کے اس ٹرمز آف ریفرنس کو ناقابل عمل قرار دیکر مسترد کر دیا تھا۔