شہید بی بی کی برسی کینسل ہو گئی اور؟
منظور وٹو نے کہا ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کینسل کر دی گئی ہے۔ یہ پشاور میں شہید بچوں کے سوگ میں اعلان کیا گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی دسمبر میں شہید ہوئی تھیں۔ انہیں بھی دہشت گردوں نے شہید کیا تھا۔ وہ بظاہر دہشت گرد نہیں بھی تھے۔ تو جس نے بھی انہیں شہید کیا تھا۔ وہ بھی دہشت گرد تھے انہیں ’’سیاسی دہشت گرد‘‘ کہہ لیں۔ اس رستے پر تفصیل میں نہیں جاتا کہ درمیان میں ایوان صدر بھی پڑتا ہے۔
مگر وٹو صاحب کو کس نے حق دیا ہے کہ شہید بی بی کی برسی کینسل کریں۔ وہ تو پیپلز پارٹی کا آدمی بھی نہیں ہے مسلم لیگ کوئی بھی ہو۔ مسلم لیگ کا آدمی پیپلز پارٹی کے لئے اچھا سوچ ہی نہیں سکتا۔ پیپلز پارٹی کے آدمی کے لئے بھی میری رائے یہی ہے۔ نجانے رانا ثناء اللہ پیپلز پارٹی چھوڑ کرکیسے مسلم لیگ کا معتبر اور معزز آدمی بنا ہوا ہے۔ تو منظور وٹو کیسے پیپلز پارٹی کا مخلص اور قابل اعتماد ہو سکتا ہے۔ وہ وزیراعلیٰ بھی پیپلز پارٹی کی بڑی حمایت سے بنے تھے۔ میں نے لکھا تھا کہ دریا نالے میں گر گیا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی حمایت سے وٹو صاحب کی مسلم لیگ کا سردار عارف نکئی بھی وزیراعلیٰ تھا۔ اس منصب کی اس سے بڑی توہین نہیں ہو سکتی۔ پیپلز پارٹی والے اس سے زیادہ مسلم لیگ کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کو ’’صدر‘‘ زرداری کی سیاست کی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ ان کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں یہ تو بلاول کو بھی پتہ نہیں چلنے دیا جائے گا۔
وٹو صاحب کی اس ظالمانہ سیاسی کارروائی سے دکھ ہوا۔ وہ اس کے بعد ’’صدر‘‘ زرداری کے اور قریب عنقریب ہو جائیں گے۔ پشاو آرمی سکول سے شہید بچوں کی یاد شہید بی بی کی یادوں میں ملائی جا سکتی ہے۔ دسمبر کا مہینہ اب برسیوں کا مہینہ بن گیا ہے۔ مگر اس سے پہلے بھٹو صاحب کے ٹیلنٹڈ کزن پیپلز پارٹی کے سابق رہنما ممتاز بھٹو یاد آئے ہیں۔ بھٹو صاحب کے زمانے ہی میں ان کا سارا ٹیلنٹ کہیں گم ہو گیا ہے۔ جو ابھی تک مل نہیں سکا۔ پچھلے دنوں نواز شریف نے ان کے اندر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر دونوں ممتاز بھٹو اور نواز بری طرح ناکام ہوئے۔ اس کے بعد عمران خان کے نمبر دو یعنی دو نمبر ’’رہنما‘‘ شاہ محمود قریشی نے بھی ممتاز بھٹو سے ملاقات کی۔ وہ جب بھی عمران خان کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ناکام رہتے ہیں بلکہ بدنام رہتے ہیں۔ بدنام رہنا بدنام ہونے سے آگے کی چیز ہے۔
ممتاز بھٹو نے غصے میں نواز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو گرفتار کریں۔ ان کا کچھ کچھ غصہ بے نظیر بھٹو پر بھی ہے کہ ہم سے پوچھے بغیر ہی خواہ مخواہ شہید ہو گئی اور آصف زرداری ایوان صدر پہنچ گئے اور ہم اپنے گھر سے ہی نہ نکل سکے۔
نواز شریف نے بھی آصف زرداری کے کہنے پر ہمیں ’’صدر‘‘ نہیں بنایا۔ انہیں معلوم تھا کہ ہم ان کے اتنے ممنون کبھی نہیں رہیں گے بلکہ ان کی غلطیوں پر ٹوکیں گے بھی۔ یہ کہتے کہ شہید بی بی کے قاتلوں کی گرفتاری کا وعدہ نبھاؤ اور سب سے پہلے رحمان ملک اور آصف زرداری کو گرفتار کرو۔
مشرقی پاکستان کی برسی بھی 16 دسمبر کو ہوتی ہے جو ہم نے منانا چھوڑ دی ہے۔ پشاور آرمی پبلک سکول میں 16 دسمبر کو قیامت ڈھاکے ہمیں یاد دلایا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان کو یاد رکھو؟
16 دسمبر کو عمران خان نے پاکستان کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا اور 18 دسمبر عمران کی تاریخ میں کبھی نہیں آئے گا۔ عمران خان کبھی طالبان خان تھے مگر طالبان نے ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا ہے۔ APC کی میٹنگ کے بعد عمران کی بڑی زور دار تقریر کی۔ ہوا یہ کہہ کر نواز شریف نے نکال دی کہ مجھے آرمی چیف کے ساتھ زخمی بچوں کے پاس نہ جانا ہوتا تو میں عمران خان کے ساتھ کنٹینر پر چلا آتا۔ اس کے بعد قہقہ بلند ہوا۔ لوگوں کو شہید بچوں کا غم بھی ہنسنے سے نہ روک سکا۔ ہماری سیاست بڑی ظالم ہے؟ عمران نے دھرنا ختم کرنے سے پہلے ایک بار نواز شریف کو کنٹینر پر بلایا ہوتا۔ وہ یقیناً آجاتے۔ دسمبر میں عمران کے دھرنے کی بھی برسی ہے اسے منانے کے لئے پورا سال انتظار کرنا پڑے گا اور انتظار کرنا عمران خان کو نہیں آتا۔ ایک سال میں نجانے کیا کیا ہو جائے گا۔ دوسرا دھرنا بھی ہو سکتا ہے جو نواز شریف کے ساتھ ساتھ خود عمران کے لئے بھی بڑا سخت ہو گا۔
سیاست کے خمار اور زعم سے نکل کر مجھے ملکہ ترنم نور جہاں کی یاد آتی ہے۔ وہ رمضان کی سترھویں (لیلۃ لقدر) کو فوت ہوئی تھی اور میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’وہ سیدھی جنت میں جائے گی‘‘ جنت کی عطا خدا کی بخشیش ہے۔ اس کے لئے کوئی شرط نہیں ہے۔ لیلۃ القدر کی مبارک رات کو نور جہاں اللہ کے حضور حاضر ہوئی تو یہ بھی رحمت کی نشانی ہے۔ اس نے ہماری تنہائیوں کو آباد کیا۔ ہماری ویرانیوں کو عشق و محبت کے چراغوں سے شاداب کیا۔ مگر مجھے یہ دکھ ہے کہ اس پکی قصورن کو اس کے رشتہ داروں نے کراچی میں دفن کیا۔ یہ قصوریوں کی توہین ہے۔
میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی بھی دسمبر میں چلے گئے۔ بڑے چھوٹے شاعر کے لئے کسی بحث میں پڑے بغیر میرا خیال ہے کہ شعری تاریخ میں ایسا انوکھا شاعر اور کوئی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف ہماری بھابھی باجی ناہید منیر نیازی کے تعاون سے پنجابی کمپلیکس میں قرآن خوانی کی ایک تعزیتی تقریب کر رہی ہے۔ اتنے بڑے شاعر کے اس شعر پر غور کریں۔
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
ایک اور قادرالکلام صابر و شاکر شاعر برادرم اقبال راہی کے لئے بھی آسان زندگی نہیں ہے۔ چند دن پہلے اس کا جواں سال بیٹا فرحان اقبال فوت ہو گیا ہے۔ کون اقبال راہی کے ساتھ اس شاندار بیٹے کی برسی منائے گا۔ فرحان بہت کمال کا شاعر تھا اور ایک موذی مرض تھیلیسیمیا میں مبتلا تھا۔ عمر بھر اقبال اسے تازہ خون فراہم کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔ اب تک اقبال کی آزمائشیں ختم نہیں ہوئیں۔ مرحوم فرحان اقبال کی بہن ارم ہمایوں خود شاعرہ ہے۔ اس کے جذبات انتہائی ولولہ انگیز ہیں۔ بہت مقبول اور ہر دل العزیز شاعر اقبال راہی نے غریبی کو کبھی بدنصیبی نہیں بننے دیا۔ کئی بچوں کی مسلسل بیماری کو بہت صبر اور حوصلے سے نبھایا وہ ایک اجڑی پجڑی اور افسردہ زندگی ہنسی خوشی گزار رہا ہے۔ مجبوریاں اسے شکست نہیں دے سکیں۔ برادرم توفیق بٹ نے ایک بہت اثر انگیز اور اداس کالم لکھا ہے اور برادرم شعیب بن عزیز کی معرفت محترم شہباز شریف کی توجہ دلوائی ہے۔ مخیر حضرات بھی توجہ فرمائیں۔ اقبال راہی کا موبائل 0322-4534350 ہے۔ اس کا حوصلہ بڑھائیں۔ اہل عشق اہل دل اہل ادب کا حق ہم پر بہت زیادہ ہے۔