پنجاب اسمبلی: حکمران جنوبی پنجاب کو حقوق نہیں دے سکتے تو نقشے سے ختم کر دیں: اپوزیشن
لاہور (خصوصی رپورٹر/ خصوصی نامہ نگار+ سپورٹس رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کو سر کاری نوکر یوں میں نظرانداز کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران جنوبی پنجاب کے عوام کو ان کو حقو ق نہیں دے سکتے تو ان اضلاع کو پنجاب کے نقشے سے ختم کر دیا جائے، اگر جنوبی پنجاب کے درخواست گزار کوالیفائی کر بھی لیتے ہیں تو جب معاملہ 8 کلب میں جاتا ہے تو وہاں پسند اور نا پسند پر مبنی فیصلے کئے جاتے ہیں ایسے میں سرائیکی اور بہاولپور صوبے کی بات کیوں نہ کی جائے جبکہ مسودہ قانون (ترمیم) سٹریٹجک کوارڈی نیشن پنجاب 2014ء اور مسودہ قانون (تیسری ترمیم) مقامی حکومت پنجاب 2014ء پیش کرنے کے بعد متعلقہ قائمہ کمیٹیوںکے سپرد کر دئیے گئے۔ صحت سے متعلق مسائل پر عام بحث ہونا تھی تاہم پولیو ریڈی کیشن کی وجہ سے یہ بحث نہ ہو سکی۔ اجلاس میں صوبائی وزیر ڈاکٹر فرخ جاوید نے سوالات کے جوابات دئیے۔ حکومتی رکن نگہت شیخ کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ روس کی طرف سے پاکستانی کینو کی برآمد پر عائد پابندی کے خاتمے کے لئے تمام محکموں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور یہ پابندی ختم ہو گئی ہے۔ مولانا الیاس چنیوٹی کے ضمنی سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ بھرتیوں پر پابندی کی وجہ سے 700فیلڈ اسسٹنٹ کی بھرتیاں نہیں ہو سکیں لیکن جیسے ہی یہ پابندی ختم ہو گی ان آسامیوں پر بھرتیاں کر لی جائیں گی۔ حکومتی رکن میاں طاہر کے سوال کے جواب میں وزیر زراعت نے بتایا کہ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے لئے پچاس فیصد بجٹ ہائیر ایجوکیشن کمشن جبکہ پچاس فیصد یونیورسٹی فیسوں کی مد میں حاصل ہونیوالے وسائل سے حاصل ہوتا ہے، پنجاب حکومت ترقیاتی کاموں کی مد میں بجٹ فراہم کرتی ہے۔ میاں طاہر نے سوال اٹھایا کہ طلبہ سے سالانہ کتنی فیس اکٹھی جاتی ہے جس پر وزیر زراعت نے جواب دیا کہ 153کیٹگریز ہیں اور ہر ایک کیٹگری کی مختلف فیس ہے تاہم فیس کی رقم نہ بتانے پر حکومتی رکن میاں طاہر نے کہا کہ ہمیں لوگوں نے ووٹ دے کر ایوان میں بھیجا ہے اگر ہم انکی بات نہیں کرینگے تو کس کی بات کریں گے۔ صوبائی وزیر کی طرف سے بار بار پوچھے جانے کے باوجود جواب نہ آنے پر حکومتی رکن اسمبلی نے اپنا اگلا سوال احتجاجاً واپس لے لیا۔ پیپلزپارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سردار شہاب الدین نے کہا کہ حکومت نے فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے سرکاری نوکریوں پر سے پابندی تو ہٹا دی ہے لیکن جنوبی پنجاب کے اضلاع کو اس میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اگر اسی طرح استحصال کا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو پھر ان اضلاع کو پنجاب کے نقشے سے کاٹ دیں جس پر سپیکر نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے آپ کیوں ایسی بات کرتے ہیں۔ صوبائی وزیر جیل خانہ جات چودھری عبدالوحید نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تعلیم‘ نوکریوں اور ترقیاتی بجٹ میںجنوبی پنجاب پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں وہاں سے بھرپور کامیابی ملی ہے۔ جتنی یونیورسٹیاں جنوبی پنجاب میں بنی ہیں وہ اپر پنجاب میں نہیں بنیں۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ سردار شہاب الدین جو بات کہہ رہے ہیں وہ درست ہے جس پر سپیکر نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے ایوان میں گیس کے بحران اور ایل پی جی مافیا کی من مانیوں پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایل پی جی 96روپے فی کلو ہونی چاہیے لیکن اسکی قیمت 250روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے ۔ کیا یہی حکومت کی گڈ گورننس ہے اس کا نوٹس لیا جائے جس پر سپیکر نے وزراء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فوری نوٹس لیں۔ حکومتی رکن میاں طارق محمود کی طرف سے بس اڈوں کی ابتر حالت زار کی پارلیمانی سیکرٹری نے گواہی دی جس پر سپیکر نے اس معاملے کو سٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹرانسپورٹ کے سپرد کر کے ایک ماہ میں جواب طلب کر لیا۔