غلطیوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا‘ سانحہ پشاور کا دکھ آئندہ نسلیں بھی محسوس کرینگی: پرویز رشید
اسلام آباد+ لاہور (نوائے وقت رپورٹ+ سٹاف رپورٹر+ ایجنسیاں) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ سانحہ پشاور کا دکھ آنے والی نسلیں بھی محسوس کرتی رہیں گی۔ سانحہ پشاور پر عوام کے جذبات کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔ شہدائے پشاور کی یاد میں دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنا احتساب بھی ضروری ہے۔ قوم کا نفع نقصان اجتماعی ہوتا ہے سانحہ پشاور کے بعد سب نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ ملک میں کسی کو مسلح لشکر قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ قدرتی سانحہ بھلایا جا سکتا ہے مگر اپنی غلطی سے ہونے والا سانحہ نہیں بھلایا جا سکتا۔ دہشت گردوں نے عبادت گاہوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، دفاعی تنصیبات سمیت ہر چیز کو نشانہ بنایا۔ کسی مسلح لشکر کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ہمیں بتائے کہ ہم زندگی کیسے گزاریں۔ انتہاپسندوں اور دہشتگردوں کو اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی غلطیوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی اصلاح بھی کرنا ہو گی۔ کسی مسلح لشکر ، عسکری ونگ ، دہشت گرد تنظیم، انتہاپسند سوچ کو ڈکٹیشن دینے کا حق نہیں دیں گے، بندوق اٹھانے کا حق صرف انہی اداروں کے پاس ہو گا جنہیں بندوق اٹھانے اور چلانے کا اختیار آئین دیتا ہے اس کے علاوہ کسی کو بندوق رکھنے اور چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جس المیہ سے پاکستان اور دنیائے انسانیت گزری ہے اسے بیان کرنے کیلئے دنیا کی ڈکشنری میں الفاظ موجود نہیں، اس دکھ کو بھولنا بھی نہیں چاہئے، بعض دکھ اور تکالیف جو فطرت کی طرف سے ہمارا حصہ نہیں بنتیں بلکہ ہماری غلطیاں، کوتاہیاں ان کو جنم دیتی ہیں، ان تکالیف کو یاد رکھنا ضروری ہو جاتا ہے تا کہ مستقبل میں ان سے بچا جا سکے، ہمیں اپنا محاسبہ اور احتساب بھی کرنا ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے جگر گوشے جس اذیت کا شکار ہوئے اس میں ہمارا حصہ کتنا ہے۔ یہ ایک المیہ نہیں بلکہ دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ، قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع، عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں، دفاعی تنصیبات، بازاروں حتیٰ کو ہسپتالوں تک میں بھی حملے ہوئے، کیا ان تمام واقعات کو تاریخ سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں، یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، جب اس تاریخ کی بنیاد رکھنے کی کوشش ہوئی تو جرم مجھ سے بھی سرزد ہوا، قوموں کی اجتماعی زندگی میں جو میٹھے پھل ملتے ہیں وہ محنت کا نتیجہ اور کڑوا پھل اجتماعی غلطی ہوتی ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ اس پھل کا ذائقہ ہمیں محسوس ہوا اور غلطیوں کا اعتراف بھی کیا، پوری قیادت نے متفقہ فیصلہ کیا کہ اپنی سرزمین پر کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ مسلح لشکر تشکیل دے، ہمسائیوں سے تعلقات کے نوعیت وہ بتائیں۔ کسی کو اپنے فلسفے مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، یہ حق عوام اور منتخب پارلیمنٹ کو حاصل ہو گا کہ وہ طے کرے کہ ملک میں کون سا نظام ہو گا۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف حکومت اپوزیشن، فوج، دانشور اور ادیب اکٹھے ہیں تو کچھ لوگوں کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے دہشتگردی کیخلاف سب ایک پیج پر ہیں غیر معمولی حالات میں غیر معمولی جنگ لڑ رہے ہیں، دہشتگردی کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔ الطاف حسین کی جانب سے مارشل لا کی بات کرنا انتہائی غیر مناسب ہے قوم کو بعض منافقین کے جھانسے میں آنے کی ضرورت نہیں، حالت جنگ میں جنگی فیصلے کرنا پڑتے ہیں، مارشل لاء اور موجودہ دور میں بننے والی فوجی عدالتوں میں فرق ہے، فوجی عدالتیں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے قائم کی جا رہی ہیں، یہ مسلط نہیں کی جا رہیں دہشتگرد خارجی ہیں۔ کسی کو مارشل لا کی دعوت دینے کی بات نہیں کرنی چاہئے، اس وقت 7 ٹرینیں سالانہ پونے دو ارب کا نقصان دے رہی ہیں، مسافر ٹرینوں کے منافع میں اضافے کیلئے ایکشن پلان مرتب کر لیا ہے۔ اس مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ہی ٹرینوں کے کرایوں میں کمی کر دی جائے گی۔ کرایوں میں کمی کا ٹیبل بنا لیا ہے، سابقہ حکومتوں میں سیاسی بنیادوں پر ٹرینوں کے سٹاپ ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہزارہ ایکسپریس کی نئی تزئین شدہ بوگیوں کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔