فوجی عدالتوں کو بھاری دل سے قبول کیا: خورشید شاہ‘ غیرمعمولی حالات کا سامنا ہے: فضل الرحمن
سکھر+ اسلام آباد (آن لائن+ ایجنسیاں) قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور پیپلز پا رٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کا ئرہ نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کو ہم نے بھاری دل سے قبول کیا ہے کیونکہ اس پر ہمارا تاریخی موقف رہا ہے کہ ہم کسی غیر آئینی طریقہ کار کو قبول نہیں کر سکتے تھے تاہم ملک میں غیریقینی صورتحال تھی اور پوری پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی تھی اس لئے اس کو اتفاق رائے سے قبول کیا۔ سکھر میں تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایم کیو ایم مخالفت کرتی تو اسے ہم اتفاق رائے سے نہیں اسے کثرت رائے سے کہتے۔ قوانین میں جو بھی ترامیم ہونگی وہ بھی اتفاق رائے سے ہونگی اور عدالتوں کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی، قومی قیادت کے اجلاس میں دہشت گردی کے معنی کی مکمل وضاحت کرنے کے بعد اتفاق رائے کیا گیا تاکہ اس قانون کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔ فوجی عدالتوں میں صرف اور صرف دہشت گردی کے مقدما ت چلیں گے کسی سیا سی کارکن یا قبائلی جھگڑوں وغیرہ کے کیسز نہیں چلیں گے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پھانسی کی سزا کی بحالی اور فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت صرف جے یو آئی نے نہیں کی سب جماعتوں نے کی ہے‘ اصولی طور پر فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں نہیں ہیں۔ مخصوص حالات کے تحت فوج کو شامل کرنے کو غیرمعمولی اقدام نہ سمجھا جائے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کا بنیادی کردار ہے لیکن ہم اس حق میں نہیں آرمی چیف دو سال کے لئے اقتدار سنبھالیں‘ دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے‘ دینی مدارس کی کردار کشی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے، مدارس کے بارے میں کوئی یکطرفہ فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ صلح کے باوجود کچھ لوگوں کو دہشت گردی کے زمرے میں لایا جا رہا ہے، مدارس کو نشانہ بنانے کے خلاف اس معاملے پر تعاون چاہتے ہیں تصادم نہیں۔ ہمارے طرزعمل، پالیسیاں اور حکمت عملی میں یکسانیت نہیں، ہم پہلے مذاکرات کرتے ہیں پھر سازشیں جس کی وجہ سے کامیاب نہیں۔ اگر کہا جائے کہ جے یو آئی نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کردی تو یہ غلط ہے۔ دینی مدارس سمیت اصلاحات کی ضرورت ہر شعبے میں ہے، کیا ملک میں ایسے سکول نہیں جو رجسٹریشن کے بغیر ہیں؟ جمہوریت اور مارشل لاء کی ایک ساتھ بات کرنا متضاد بات ہے، ہر روز کوئی نہ کوئی مدرسوں میں کوائف پوچھنے آجاتا ہے۔