فوجی عدالتیں: سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنز ذہن میں رکھنا ہونگی: جسٹس (ر) سعیدالزمان
اسلام آباد (نیٹ نیوز/ بی بی سی) ملک میں فوجی سربراہوں کی قیادت میں خصوصی ٹرائل کورٹس قائم کرنے کے فیصلے کے بارے میں قانونی اور آئینی ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان کے سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی فوجی عدالتیں قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ آئین کے منافی متوازی نظام عدل قائم نہیں کیا جا سکتا۔ سیعد الزمان صدیقی نے جو فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ سنانے والے بینچ کا حصہ تھے نے کہا کہ ’محرم علی کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ عدالتیں آئین کے مطابق نہیں۔ فلاں فلاں شق آئین کے متصادم ہے۔‘ حکومت کو چاہیے کہ اس عدالتی فیصلے میں دی گائیڈلائنز کو ذہن میں رکھے ورنہ سپریم کورٹ اسے دوبارہ کالعدم قرار دے دے گی۔ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس (ر) وجیہ الدین کے مطابق موجودہ صورتحال میں پورے ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام ناممکن دکھائی دیتا ہے تاہم حکومت آرٹیکل 245 کا سہارا لے سکتی ہے۔ ’فاٹا اور سرحدی علاقوں میں جہاں فوج ہے وہاں تو فوجی ٹربیونلز قائم ہوسکتے ہیں لیکن قدرے پرامن علاقوں میں ایسا ممکن نہیں۔ وفاق اور پنجاب میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج موجود ہے اس لیے حکومت اب سندھ سمیت دیگر صوبوں سے ایسی ہی درخواست کر رہی ہے، جس کے بعد فوجی ٹربیونلز کو قانونی جواز فراہم کیا جاسکے گا۔‘ جسٹس سعید الزمان صدیقی نے کہا کہ پاکستان کے حالات کے پیش نظر اگر فوجی عدالتیں بنتی ہیں لیکن انہیں آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس وجیہ الدین کا خیال ہے کہ اے پی سی میں حمایت کے باوجود ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کو ان جماعتوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان جماعتوں کو اپنے حلقوں کی جانب سے کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ ’مجھے یقین ہے کہ اگر فوجی ٹربیونل بنا بھی لیے گئے تو ان پر عمل نہیں ہوگا۔‘ فوج انتظامی امور کیعلاقوں میں فوجی عدالتیں قائم کرتی ہے۔ تاہم پورے ملک یا پھر چند مخصوص علاقوں کیلیے یہ کیسے ممکن ہوگا؟ متحدہ قومی مومنٹ سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون دان سینیٹر فروغ نسیم نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام غیر آئینی ہے۔’ہاں اگر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کے قیام پر متفق ہوتی ہیں تو انہیں آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔‘ ماضی میں فوجی عدالتوں کو کراچی میں قائم کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ’فوجی عدالتوں کا قیام اور ان میں فوجی افسروں کی تعیناتیاں آئین کے آرٹیکل 173 کی خلاف ورزی ہے۔‘ فوجی عدالتوں کی حمایت کرنے والے دنیا کے دیگر ممالک کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ جواز بھی کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور جنگ زدہ علاقوں میں بین الاقوامی قانون بھی خصوصی اقدامات کی اجازت دیتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق قانونی ماہرین اور تجزیہ کار فوج کے ماتحت عدالتوں کو موجودہ عدالتی نظام کے متوازی کوشش قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حالت جنگ میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہیں۔ لیکن یہ خدشہ ہے کہ دو سال کے عرصے کے لیے بنائی جانے والی فوجی عدالتیں کیا انصاف کی فراہمی میں آئین اور قانون کے تقاضے پورے کریں گی یا ان پر آنے والے عرصے میں سوالات اٹھائے جائیں گے۔ آن لائن کے مطابق ملک بھر کی وکلا برادری نے فوجی عدالتوں کے قیام کو آئین سے متصادم قرار دیتے اور شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملک میں دو عدالتی نظام نہیں چل سکتے۔ حکومت نے اقدام کر کے ثابت کر دیا کہ یہاں نااہل افراد کی حکومت ہے جو ہر کام آئین سے متصادم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حکومت نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے کوئی آئینی ترمیم لانے کی کوشش کی تو اسے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کریں گے۔ ماہر آئین سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لئے آئین اجازت نہیں دیتا۔ حکومت کی طرف سے نئی عدالتوں کا قیام ہمارے لئے تشویشناک بات ہے۔ حکومت اس مقصد کے لئے آئینی ترمیم لائی تو اسے آئین کے اصولوں کے مطابق دیکھیں گے۔ وہاب الخیری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ جاہل افراد کا مجموعہ ہے۔ ملک میں متوازن عدالتی نظام نہیں چل سکتا۔ نہ ہی آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت نے اگر عدالتوں کے قیام کے لئے قانون سازی کی تو ہم اسے عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔ عمران خان نے اس ٹولے میں شریک ہو کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں۔ اسے قانون کا پتہ ہی نہیں۔ ایسی عدالتوں سے بہتر ہے مارشل لا لگا دیا جائے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سینئر نائب صدر محمد اکرام چودھری نے کہا کہ ہم فوجی عدالتوں کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ آئین سے متصادم اور آئین کے بنیادی تصور کی مخالف ہیں۔ سیاسی قیادت نے اقتدار کو بچانے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کر دیں۔ فوج آرٹیکل 245 کے علاوہ کسی عدالتی نظام کا حصہ نہیں بن سکتی۔ پارلیمنٹ آئین سے متصادم کوئی ترمیم لائی تو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ اگر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کر دیا تھا تو ملکی بقا کے لئے فوجی عدالتیں کیوں نہیں قائم کی جا سکتیں۔ گیارہ سو افراد قومی خزانے سے آلو پراٹھے کھا رہے ہیں۔ ان کو فارغ کر دیا جائے تو ملک پر بڑا احسان ہو گا۔