جہیزکی لعنت
کسی بھی معاشرے میں جہیز کی حوصلہ افزائی کا تصور ممکن نہیں لیکن اکثر اوقات جہیز نہ لانے کی صورت میںگھروں میں چولہے بھی پھٹتے ہیں اور حوا کی بیٹی کو اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھونا پرتے ہیں بد قسمتی سے جہیز جیسی لعنت کو صرف کہنے کی حد تک ہی برا خیال کیا جاتا ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو عملی طور پر اپنی زندگی میں اسے ایک لعنت سمجھ کر فرسودہ رسم قرار دیتے ہیں بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسے اصولوں کی بنیاد پر کھڑا ہے جن تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں لیکن یہ گناہ کسی بھی مذہب کے نام پر کئے جاتے ہیں افسوسناک امر یہ ہے کہ دلہن کے ساتھ ساتھ قیمتی سامان کا تفاضا کیا جاتا ہے اور یہ لوگ ان والدین کا درد تک نہیں سمجھ سکتے جو اپنے دل کا ٹکڑا دیتے ہیں شاید اس کے بعد ان سے کچھ مانگنا بنتا ہی نہیں اگر سمجھا جائے تو ان کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے لڑکے والوں پر کیونکہ پوری زندگی والدین اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اور دنیا کی یہ رسمیں ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے جب وہ اپنی پیاری بیٹی کو کسی کے ہاتھو ں میں سونپتے ہیں۔
آج کے دور میں دو وقت کی روٹی کمانا بہت مشکل ہے لیکن بیٹی کی شادی کرتے وقت والدین کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اپنی بیٹی کو دین و دنیا کی رسم کے مطابق ہی رخصت کریں۔اس لیئے ضروری ہے کہ اس رسم کو ختم کرنے کے لیے تمام لوگ اپنا اپنا احتساب کریں۔
طلاق کی بڑھتی ہوئی وجہ بھی جہیز ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق40 فیصد طلاقوں میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے جبکہ سسرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی 90 فیصد سے زائد خواتین ظلم اس لیئے سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرال والوں کی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ظلم کی چکی میں پستی چلی جاتی ہیں اور اس دنیا سے خاموش ہی چلی جاتی ہیں تاکہ ان کے والدین کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
کیوں لوگ یہ نہیں سوچتے کہ وہ بھی ایک بیٹی کے والدین ہیں وہ آج جو اپنی بہو کے ساتھ کرتے ہیں کل ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے
آج بہو سے لیں گے کل بیٹی کو دیں گے
آج طعنے دیں گے کل طعنے سنیں گے
بہن بیٹیاں تو ہر گھر میں ہیں
جہیز ایک لعنت ہے اور اس لعنت میں ہم سب جانے انجانے میں تھوڑا بہت حصہ ڈالتے رہتے ہیں لہذا ہمیں اپنی اس فرسودہ رسم کا خاتمہ کرنا چاہیے۔
شفا رحمن خان
(شعبہ ابلاغیات ایم اے او کالج )