”لمحہ بہ لمحہ مرنے والے لوگ؟“
وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے 23 دسمبر کو اعلان کِیا تھا کہ ”نتائج خواہ کچھ بھی ہوں ہم دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور مَیں خود دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کروں گا۔“ 24 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس میں شریک سیاسی / مذہبی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں نے دہشت گردی کے خلاف قیادت جنابِ وزیرِاعظم کو سونپ دی۔ سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے فوجی افسروں کی سربراہی میں دو سال کے لئے خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز تھی جِس کی بعض سیاسی جماعتیں مخالفت کر رہی تھیں۔ لندن میں 25 سال سے ڈیرہ ڈالے اور پاکستان میں (بقول اُن کے) کروڑوں لوگوں کے واحد لیڈر جناب الطاف حسین نے جنرل راحیل شریف کو اپنی طرف سے ”بھاری مینڈیٹ“ بھی دے دِیا تھا کہ ”صِرف فوجی عدالتیں ہی کیوں؟ آپ دو سال کے لئے مارشل لاءلگائیں اور چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بن جائیں!“
ہمارے اکثر سیاستدان (خاص طور پر جمہوریت کے تسلسل کے علمبردار جناب آصف زرداری کہا کرتے ہیں کہ ”بدترِین جمہوریت بہترِین آمریت سے اچھی ہوتی ہے“ اور بے چارے جمہُور میں سے ہر کوئی ایک دوسرے سے ¾ ہر دَور میں پُوچھتا رہا ہے اور پُوچھ رہا ہے کہ ”ہمارے سروں سے بدترین جمہوریت کا منحوس سایہ کب ہٹے گا؟ اور ہمیں بہترین جمہوریت کب نصیب ہوگی؟“ سابق صدر زرداری کے دَور میں الطاف بھائی کو منانے اور اُن کے تحفظّات دُور کرنے اور اُن کے ہاتھ کی پکی حلیم کھانے کے لئے جناب رحمن ملک لندن جاتے رہتے تھے لیکن جناب اسحاق ڈار نے نہ جانے کون سا منتر پڑھا کہ الطاف بھائی ٹیلی فون پر ہی مان گئے۔ خبروں کے مطابق ”جنرل راحیل شریف نے اے پی سی کے شُرکاءکو بریفنگ دیتے ہُوئے کہا کہ ”وقت آ گیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دلیرانہ فیصلے کریں ¾ سخت قوانین بنائیں اور مو¿ثر اقدامات کریں۔“ فوجی عدالتوں کے قیام کے مخالف جناب عمران خان نے آدھ گھنٹے کا وقت مانگا اور راضی ہو گئے۔
پشتُونخوا مِلی عوامی پارٹی کے سربراہ جناب محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صدر جناب اسفند یار خان ولی بھی فوجی عدالتوں کے قیام کے مخالف تھے۔ انہوں نے اے پی سی میں ”اصالتاً“ شرکت سے معذرت کر لی لیکن اُن کے نمائندوں نے ”وکالتاً“ فوجی عدالتوں کے حق میں رائے دے دی۔ مولانا فضل الرحمن نے ”بادِلِ خواستہ“ اور جناب سراج الحق نے ”بادِلِ نخواستہ“ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے ”جہاد“ کو مان لِیا لیکن دِلوں کے بھید تو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔ دونوں ”بزرگوں“ کو دِینی مدرسوںکی زیادہ فِکر رہتی ہے۔ وہ رجسٹرڈ اور ”اَن رجسٹرڈ“ مدرسوں میں تفریق کرنے کے حق میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کے ماتھے پر کب لِکھا ہوتا ہے کہ وہ کِس رجسٹرڈ یا اَن رجسٹرڈ مدرسے کے ”سَند یافتہ / سَند باختہ“ ہیں۔ اسلام آباد کی لال مسجد اور اُس سے ملحقہ سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کر کے اُس پر تعمیر کئے گئے جامعہ حفصہ میں مسجد کے خطِیب مولوی عبدالعزیز نے جو مسلّح دہشت گرد جمع کر رکھے تھے کیا وہ سب ”لائسنس یافتہ“۔ تھے۔
وزیرِاعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کِیا کہ ”دہشت گردوں کے فنڈنگ وسائل ختم کردیئے جائیں گے۔ کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گردوں کی خبریں نشر کرنے پر پابندی ہو گی۔ اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ فوجداری عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات کا عمل تیز کر دِیا جائے گا۔ مدارس کی رجسٹریشن ہو گی۔ مسلّح جتھوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ فِرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے“ وغیرہ وغیرہ۔ سب کی سب تجاویز عُمدہ ہیں بشرطِ کہ اِن پر خلوصِ دِل سے عمل کِیا جائے۔ سب سے بڑا مسئلہ دِینی مدرسوں کا ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنی 21 دسمبر کی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ”یہ الگ بات ہے کہ بعض دِینی مدرسے سرکاری اور پرائیویٹ زمینوں پر قبضہ کر کے بنائے گئے ہیں۔“ جناب وزیرِ داخلہ صاحب! ”دِین کی اشاعت کے علمبردار“ جِن لوگوں نے سرکاری اور پرائیویٹ زمینوں پر قبضہ کر کے اُن پر مدرسے بنائے ¾ کیا انہوں نے گُناہ/ جُرم نہیں کِیا؟ اُن کی اِس قِبیح حرکت کو ” یہ الگ بات ہے“ کہہ کر نظر انداز کیوں کیا جائے؟ دُنیا دار لوگ اِس طرح کا جُرم کریں تو پکڑے جاتے ہیں لیکن ”دِین دار لوگوں“کو ¾ اُن کے گُناہ / جُرم کی سزا کیوں نہ دی جائے؟ یقیناً ایسے مدرسوں کے اساتذہ اپنے شاگردوں کو بھی اِسی طرح کی تعلیم دیتے ہوں گے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور کے وفاقی وزیرِ مذہبی امور جناب اعجاز الحق کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ”دِینی مدرسوں کے بہت سے مُنتظمین اور اساتذہ نے مدرسوں کو مِلنے والے عطیات سے اپنی جائیدادیں بنا لی ہیں۔“ لیکن وفاق المدارس اور عُلماءکی کسی تنظیم نے اعجازالحق صاحب کے اِس بیان کی تردید نہیں کی اور نہ ہی کسی بڑے یا چھوٹے مُفتی نے یہ فتویٰ دِیا کہ ”دِینی مدرسوں کو مِلنے والے عطیات غبن کر کے ذاتی جائیدادیں بنانے والے ”اصحاب“ جنت میں جائیں گے یا کہیں اور؟
سانحہ¿ پشاور کے بعد جنرل راحیل اگر مارشل لاءنافذ کر کے اِقتدار پر قبضہ کر لیتے تو ان کے لئے نادر موقع تھا لیکن انہوں نے ”بدترین جمہوریت“ کو چلنے دِیا۔ اکیلے جناب الطاف حسین کو ہی نہیں مارشل لاءکی بیساکھیوں کے سہار ے اقتدار کا جُھولا جُھولنے والے اور بھی کئی سیاسی / مذہبی لیڈروں کو بھی مایوسی ہُوئی ہوگی؟ وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو مزید دو سال کی مہلت مِل گئی ہے کہ وہ مفلُوک الحال عوام کے مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کو ”غیر نصابی سرگرمیوں“ میں مصروف رکھنے کے بجائے اُن سے عوام کے مفاد کے لئے منصوبے بنوائے جائیں۔ مختلف نیوز چینلوں پر کھسیانی ہنسی کے بعد چاروں طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھنے سے بھُوکوں کا پیٹ نہیں بھرتا ۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف گزشتہ ساڑھے چھ سال سے اپنی تقریروں میں وارننگ دیتے رہتے ہیں کہ ”اگر اشرافیہ نے اپنا روّیہ نہ بدلا تو خُونی اِنقلاب آئے گا۔“ لیکن اشرافیہ ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کی وارننگ سے مرعُوب ہی نہیں ہو رہی۔ بڑے میاں صاحب نے یومِ تکبیر کے موقع پر 28 مئی کو ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں مجاہدِ تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں فرمایا تھا کہ ”مَیں نے پہلے ایٹمی دھماکا کِیا تھا اور اب میں ”معاشی دھماکا“ کروں گا۔“ اِس اعلان کو ڈیڑھ سال اور ایک مہینہ ہوگیا لیکن دُور دُور تک ”معاشی دھماکا“ کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ وزیرِاعظم صاحب نے اپنے لئے 35/35 کروڑ کی دو بُلٹ پرُوف مرسڈیز کا آرڈر دے دِیا ہے اور ایک بُلٹ پرُوف گاڑی کا مولانا فضل اُلرحمن کے لئے بھی حکم دے دِیا ہے۔ جو لوگ خُودکش حملوں سے جاں بحق ہوتے ہیں اُن کے لواحقین کو تو 5 لاکھ روپے فی کس مِل جاتے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ مرنے والے وہ لوگ کیا کریں ¾ جنہیں خودکش حملہ آور مارنے میں ناکام رہتے ہیں؟