کینیا کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان۔۔۔۔ دیگر ٹیموں کا اعتماد بحال کریگا
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹر قذافی سٹیڈیم میں دفاتر والے حصے میں پہلی منزل پر کئی اہم، بااثر اور طاقتور شخصیات کے دفاتر ہیں۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ کا دفتر بھی پہلی منزل پر ہی واقع ہے۔ اس دفتر کے باہر ہمیشہ ہی بہت گہما گہمی رہتی ہے۔ اسی منزل پر چیئرمین کے بعد کرکٹ بورڈ کے دوسرے مضبوط اور طاقتور افسر چیف آپریٹنگ آفیسر کا دفتر بھی واقع ہے۔ اس کمرے میں پاکستان کرکٹ کے اہم فیصلے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے کرکٹرز کے حوالے سے اہم فیصلے کئے جاتے ہیں یہی وہ کمرہ ہے جہاں سے سابق ٹیسٹ کرکٹرز کو کرکٹ بورڈ میں ملازمت دینے یا نہ دینے کے حوالے سے بھی فرمان جاری ہوتے ہیں۔ بعض سابق کھلاڑی پہلی منزل پر واقع اس کمرے سے خوش ہوتے ہیں تو بہت سے نامور نام اس کمرے میں موجود فرد سے نالاں اور ناراض بھی دکھائی دیتے ہیں۔اس کمرے میں جس طرح سے بیٹھنے کا انتظام رکھا گیا ہے۔ اس کے بائیں طرف سے قذافی سٹیڈیم میں جاری کوئی بھی میچ دیکھنے کا لطف کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں سے گراﺅنڈ میں کھڑے تمام کھلاڑی بھی واضح نظر آتے ہیں۔ دائیں، بائیں شائقین کو بھی با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کمرے میں کوئی بھی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے آئے اسکا مرتبہ و مقام ایسے ہی معتبر ہو جاتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر کی حیثیت سے کام کرنیوالا شخص یقیناََ قسمت کا بھی دھنی ہو گا۔ جو ملک کے مقبول ترین کھیل کے انتظامی معاملات میں اہم کردار سنبھال رہا ہوتا ہے۔ شائقین کھلاڑیوں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں تو کرکٹرز قذافی سٹیڈیم کی پہلی منزل پر دفاتر میں موجود اعلیٰ افسروں کی ناراضی مول لینا پسند نہیں کرتے۔ ان دنوں سبحان احمد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ سبحان احمد خوش لباس بھی ہیں اور خوش اخلاق بھی! کمرے میں داخل ہوں تو مسکراتے ہوئے آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ گفتگو میں دلائل کے ساتھ قائل کرنے کی کوشش کرنے والے سبحان احمد سے گذشتہ دنوں ہونیوالی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ ہم نیک نیتی کے ساتھ پاکستان میں کرکٹ کے فروغ اور اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کے لئے بہت محنت اور ایمانداری کے ساتھ کام کیا ہے۔ ہم نے اپنے ملک کے میدانوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے بہت کوششیں کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمیں کامیابیاں بھی حل ہو رہی ہیں۔ کینیا کی ٹیم پاکستان کا دورہ کر کے گئی ہے۔ یہ ہر لحاظہ سے ایک کامیاب اور بہترین دورہ تھا۔ کینیا کے کامیاب دورے کے بعد پاکستان میں دیگر غیر ملکی ٹیموں کے لئے راہ ہموار کرے گا۔ ہم نے کینیا کو غیر ملکی سربراہان جیسی سکیورٹی مہیا کی تھی امید ہے کہ اس دورے سے پاکستان میں کھیلنے کے حوالے سے غیر ملکی ٹیموں کا اعتماد بڑھے گا اور ہمیں اس حوالے سے مستقبل میں دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز کو قائل کرنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سارے عمل کی فوٹیج کو آئی سِی سِی کے سامنے پیش کریں گے۔ کینیا کی کرکٹ ٹیم کی پاکستان میں آمد اور روانگی تک کے تمام اہم مقامات پر دورہ ان کی پاکستان میں مصروفیات، شائقین کی سٹیڈیم تک آمد، سکیورٹی کے انتظامات کو قلمبند کیا ہے۔ اس ساری مشق کو آئی سِی سِی کے ساتھ ساتھ دیگر رکن ممالک کے سامنے بھی رکھا جائیگا۔ امید ہے اس طرح کی سکیورٹی انتظامات کے بعد غیر ملکی ٹیموں کو دورہ پاکستان کے لئے قائل کرنا کسی حد تک آسان ہو جائیگا۔ چیف آپریٹنگ آفیسر کرکٹ بورڈ نے کہا کہ شائقین کرکٹ نے جس جوش وجذبے کے ساتھ موسم کی سختیوں اور کئی جگہ پر جامہ تلاشی اور سٹیڈیم سے خاصی دور پارکنگ ہونے کے باوجود قذافی سٹیڈیم آکر میچز دیکھے اس رویے سے بھی ہمارے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ 2009 ءمیں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونیوالے حملے کے بعد ہم یہ سوچ رہے تھے کہ شاید کبھی دوبارہ اس جوش و خروش کے ساتھ سٹیڈیم نہ آئیں لیکن کینیا کی ٹیم کے خلاف پاکستان اے کی ٹیموں کے مابین شائقین کرکٹ کی آمد قابل تحسین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کی سٹیڈیم آمد یہ ثابت کرتی ہے کہ آج بھی پاکستان کی عوام میں اس کھیل کے لئے محبت اور جنون میں کمی نہیں آئی۔ سبحان احمد کا کہنا تھا کہ غیر ملکی ٹیموں کی پاکستان آمد کا سلسلہ جاری رہے گا۔آئندہ سال کے شروع میں بھی اس حوالے سے اچھی خبریں ملیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کرکٹ بورڈ کے انتظامی ڈھانچے میں بہتری کے لئے چند تبدیلیاں زیر غور ہیں۔ ان پر کام بہت تیزی سے جاری ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے انتظامی ڈھانچے میں موجود خامیوں کو دور کر کے اسے ہر لحاظ سے ایک پیشہ وار ادارہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ہم نے ماضی میں بھی مسلسل محنت سے کامیابیاں حاصل کی ہیں اس معاملے میں بھی کامیاب ہوں گے۔ ہم نے عزم کر رکھا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہر لحاظ سے ایک پروفیشنل ادارہ بنانا ہے۔ دورہ حاضر کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا سے بہتر تعلقات کو ثالح رکھنے اور ملکی سطح پر معاملات کو زیادہ بہتر انداز میں چلانے کے لئے تمام ضروری تبدیلیاں کریں گے۔ سبحان احمد کا کہنا تھا کہ آئندہ سال کے لئے ہم نے تین اہداف مقرر کئے ہیں۔ سب سے پہلا اور بڑا ہدف2015 ءکا عالمی کپ ہے ہم وہ تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں جن سے ٹیم کی کارکردگی پر اچھا اثر پڑے اور نتائج توقعات کے مطابق آئیں۔ خواہش ہے کہ میگا ایونٹ میں قومی کرکٹ ٹیم کامیابی حاصل کرے دوسرا اہداف بھارت کے ساتھ کرکٹ سیریز کا انعقاد ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین کرکٹ سیریز دنیا بھی کی کرکٹ سے زیادہ پر کش اور دلچسپی رکھتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ سیریز کی بحالی کا سال بھی ہوگا۔ آئندہ سال ہی ہم کسی بڑی ٹیم کو پاکستان بلانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ تمام کام مشکل ہیں لیکن اب کام پاکستان کرکٹ کے لئے بہت فائدہ مند ہیں۔ ہم ان اہداف کو حاصل کریں گے اور پاکستان کرکٹ کو بلندیوں پر لے جائیں گے۔ سبحان احمد نے بتایا کہ کینیا کی ٹیم کی پاکستان میں قیام کے دوران ہی پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ یہ ایک دل ہلا دینے والی کارروائی تھی۔ اس واقعے کے بعد کینیا کرکٹ ٹیم نے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہم اس پر کینیا کی کرکٹ ٹیم کے بھی مشکور ہیں دیگر ممالک جن کی مستقبل میں پاکستان آمد متوقع ہے ان کی طرف سے بھی کسی قسم کے خدشات کا اظہار نہیں کیا گیا۔ یہ صورتحال حوصلہ افزا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ بھی کینیا کرکٹ ٹیم کو دی جانیوالی سکیورٹی ہے۔ سبحان احمد نے بتایا کہ کینیا کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے موقع پر سکیورٹی کے معاملات میں حکومت نے بہترین انتظامات کئے۔ کرکٹ بورڈ کو وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ہر قسم کا تعاون ملا۔ پی سِی بی نے بھی اس موقع پر کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہاکہ میں ایک ایسے عہدے پر کام کر رہا ہوں جہاں مجھے لوگوں کو خوش کرنے کی پالیسی کی بجائے پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے لئے بہتر فیصلے کرنا زیادہ اہم ہے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے تعلقات نہیں نبھاتا، ہر فیصلہ ایمانداری اور میرٹ پر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سخت فیصلوں سے بعض لوگ ضرور ناراض ہوتے ہوں گے لیکن میرے نزدیک پاکستان کرکٹ کی بہتری سب سے اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کی کوششوں سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے دروازے کھلنا شروع ہوئے ہیں اس میں سابق چیئرمین نجم سیٹھی کی ہمیں بھرپور سپورٹ حاصل رہی ہے۔ اگر اسی طرح کام جاری رہا تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں دیگر ممالک کی اے اور انڈر 19 ٹیمیں پاکستان میں ایکشن میں دکھائی دینگے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2009ءکے بعد بڑا مشکل وقت کاٹا ہے۔ اگر کوئی کوئی ملک ہوتا تو شاید اس ملک کی کرکٹ ہی ختم ہو جاتی۔ ہمارے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے کہ ہم نے انٹرنیشنل کرکٹ کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کو بھی جاری رکھنا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہر عہدہ جواب دے ہے کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوتی۔